حیدرآباد (دکن فائلز) آئیڈیل کالج آف فارمیسی، کلیان میں مسلم طلبا کے ساتھ پیش آنے والے شرمناک اور ہراسانی پر مبنی واقعہ کے خلاف مختلف برادریوں سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکنوں، اساتذہ اور وکلا کے ایک بڑے وفد نے کالج انتظامیہ سے ملاقات کی اور وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے اُن افراد کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا جنہوں نے نماز ادا کرنے والے طلبہ کو نہ صرف ہراساں کیا بلکہ زبردستی معافی منگا کر مذہبی طور پر رسوا کیا۔
وفد میں درگیش گائیکواڑ، سمیع قریشی، معین ڈان، سلیم شیخ، آنند کمار، اشفاق شیخ، ضمیر خان، التامش کارت اور شہزاد ساگر شامل تھے۔ وفد نے بتایا کہ طلبہ نے جمعہ کی نماز اپنے شعبۂ سربراہ کی اجازت سے ایک خالی کلاس میں ادا کی تھی، مگر اسے خفیہ طور پر ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا۔
ویڈیو وائرل ہوتے ہی بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کے کارکن کالج میں گھس آئے، مسلم طلبا کو گھیر کر ان سے زبردستی معافی منگوائی، انہیں کان پکڑوا کر شیواجی کے مجسمے کے سامنے کھڑا کیا اور “جے ایس آر” کے نعرے لگوائے۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب طلبا بارہا کہتے رہے کہ انہوں نے نماز کی اجازت لی تھی اور کسی اصول کی خلاف ورزی نہیں کی۔
وفد نے اسے “سوچی سمجھی مذہبی تذلیل اور مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی منظم کوشش” قرار دیا۔ سماجی کارکن درگیش گائیکواڑ نے کہا کہ یہ طلبہ کی عزتِ نفس پر حملہ ہے۔ تعلیمی اداروں کو نفرت کا اکھاڑا نہیں بننے دیا جا سکتا۔”
معین ڈان نے کہاکہ “یہ واضح طور پر مسلمانوں کو دبانے اور خوف پھیلانے کی کارروائی ہے۔ طلبہ نے کوئی اصول نہیں توڑا۔ پھر یہ سلوک کیوں؟”
وفد نے کالج کو دیا گیا میمورنڈم میں مطالبہ کیا کہ:
* وی ایچ پی و بجرنگ دل کے اُن ارکان کے خلاف فوری FIR درج کی جائے
* ویڈیو بنانے اور پھیلانے والے طلبہ کی شناخت کر کے کارروائی کی جائے
* متاثرہ مسلم طلبہ کو نفسیاتی معاونت دی جائے
* کیمپس میں ہر مذہب کے طلبہ کے لیے مشترکہ عبادت گاہ یا پرامن جگہ فراہم کی جائے
* ادارے میں مذہبی غیر جانبداری کا باضابطہ سرکلر جاری کیا جائے
* شرپسند عناصر کے داخلے کو روکنے کے لیے سکیورٹی سخت کی جائے
وفد نے کہا کہ صرف “کونسلنگ” کافی نہیں، جب تک قانونی کارروائی نہیں ہوگی، ایسے گروہ دوبارہ حملہ کریں گے۔
کالج انتظامیہ نے وفد کو بتایا کہ وہ “قانونی رائے” لے رہے ہیں، مگر اب تک پولیس شکایت درج نہیں کی گئی۔ وکیل سمیر قریشی نے کہا کہ “قانونی کارروائی کے بغیر یہ سب محض دکھاوا ہے۔ شرپسندوں کو سزا ملے بغیر یہ نفرت رکنے والی نہیں۔”
ایک طالب علم نے خوف کی حالت بیان کرتے ہوئے کہا کہ “ہم پڑھنے آئے تھے، ذلیل ہونے نہیں۔ اب ہمیں ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے۔”
وہیں ہائی کورٹ کے وکیل فیاض شیخ نے بھی کالج کو قانونی نوٹس بھیجا ہے جس میں پوچھا گیا ہے کہ:
* باہر کے لوگ کالج میں گھسے کیسے؟
* کس نے طلبہ کو مذہبی رسوائی پر مجبور کیا؟
* سی سی ٹی وی فوٹیج محفوظ کیوں نہیں دی گئی؟
* سکیورٹی انتظامات کیوں ناکافی تھے؟
انہوں نے کہا کہ ویڈیو وائرل کر کے پورے مسلم سماج کو دھمکانے کی کوشش کی گئی ہے۔
کلیان کے اس واقعہ نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا ملک کے تعلیمی ادارے مذہبی آزادی اور باہمی احترام کے بنیادی اصولوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں؟ سماجی وفد نے واضح کہا کہ اگر انتظامیہ نے فوری کارروائی نہ کی تو معاملہ عدالت میں لے جایا جائے گا۔


