حیدرآباد (دکن فائلز) اترپردیش کے میرٹھ شہر میں ایک مسلم خاندان کو مکان فروخت کیے جانے کے خلاف ہندو تنظیموں کے ہنگامہ نے ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی پولرائزیشن اور مسلم مخالف نفرت انگیزی کے بڑھتے واقعات کو ایک بار پھر نمایاں کردیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہندوتوا گروپوں کے اس احتجاج کو ملک میں 2014 کے بعد مسلم برادری کے منظم حاشیہ برداری کے سلسلے کی تازہ مثال قرار دیا جارہا ہے۔
تھاپر نگر علاقے میں 1.50 کروڑ روپے مالیت کا ایک مکان سعید احمد نامی مسلمان تاجر نے فروخت کنندہ نریش کالرا سے خریدا تھا۔ تمام قانونی کارروائی مکمل ہونے کے بعد سعید احمد اور ان کا خاندان چند دن قبل ہی مکان میں منتقل ہوا تھا۔ تاہم، مقامی ہندوتوا تنظیموں نے اس فروخت کے خلاف شدید اعتراض ظاہر کیا اور جمعہ کے روز پولیس اسٹیشن کے سامنے دھرنا دے کر ہنگامہ برپا کردیا۔
احتجاج کرنے والے گروپوں نے پولیس اسٹیشن کے احاطے میں ہنومان چالیسا کا پاٹھ کرتے ہوئے مکان کی فروخت کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ایک مسلم خاندان کے وہاں آبسنے سے ’’ہندو نقل مکانی‘‘ شروع ہوجائے گی، اور علاقے کی ’’ڈیموگرافک تبدیلی‘‘ کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ یہ وہی بیانیہ ہے جو ہندوتوا گروپ ’’لینڈ جہاد‘‘ کے نام سے ملک بھر میں پھیلاتے آرہے ہیں۔
احتجاجی ماحول نے خریدار سعید احمد پر شدید ذہنی دباؤ پیدا کردیا۔ انہیں بار بار پولیس اسٹیشن آنے کی ہدایت دی جاتی رہی۔ ان کی اہلیہ افشاں نے بتایا کہ مسلسل فون کالز اور دباؤ کے نتیجے میں ان کے شوہر گھر سے پولیس اسٹیشن جاتے وقت بے ہوش ہوگئے، جس کے بعد انہیں اسپتال منتقل کرنا پڑا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مقامی سکھ کمیونٹی کے افراد بھی اس مکان کو خریدنے کے خواہش مند تھے، لیکن فروخت کنندہ نے قانونی طور پر مکان مسلم خریدار کو فروخت کیا، جس پر کسی بھی مذہبی گروہ کی مداخلت کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
واقعہ کے بعد جب پولیس کو احتجاج کی اطلاع ملی تو سی او کنٹ نوینا شکلا موقع پر پہنچیں۔ اس دوران ہندوتوا گروپوں کے درمیان اختلاف سامنے آیا۔ چند گروہ معاملہ پولیس کے سپرد کرنے پر آمادہ ہوگئے، مگر اکھل بھارتیہ ہندو سرکشا سنگٹھن کے صدر سچن سیروہی کی قیادت میں ایک گروہ ضد پر قائم رہا کہ مکان کی فروخت ہر حال میں منسوخ کی جائے۔
ایسا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ 2017 میں بھی میرٹھ کے ملیواڑہ علاقے میں ایک مسلم خاندان کو مکان خریدنے پر ہندو پڑوسیوں اور دائیں بازو کے گروہوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس وقت بھی ‘‘لینڈ جہاد’’ کا پروپیگنڈہ ہوا اور خاندان کو ہراساں کیا گیا۔
ویڈیو دیکھنے کےلئے لنک پر کلک کریں:
https://x.com/i/status/1994894759828361442
ملک کی کئی ریاستوں میں اقلیتی برادریوں، خصوصاً مسلمانوں، کو ہندو اکثریتی علاقوں میں گھر خریدنے یا کرایہ پر لینے میں مسلسل دشواریاں پیش آتی رہی ہیں۔ شہری علاقوں میں مذہبی بنیادوں پر امتیازی ہاؤسنگ پالیسی اور سماجی بائیکاٹ گزشتہ چند برسوں میں تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے۔
میرٹھ کا تازہ واقعہ اس بات کی کھلی نشاندہی ہے کہ مذہبی منافرت کی سیاست کس طرح عام شہریوں کی روزمرہ زندگی اور ان کے بنیادی حقوق جیسے رہائش اور آزادانہ نقل و حرکت کو متاثر کر رہی ہے۔ قانونی طور پر مکمل اور درست فروخت کو اجتماعی دباؤ سے روکنے کی کوشش نہ صرف آئینی اصولوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی کے لیے بھی خطرناک رجحان ہے، جس پر سنجیدہ غور و فکر اور ریاستی سطح پر سخت قانونی کارروائی کی فوری ضرورت ہے۔


