حیدرآباد (دکن فائلز) 2020 دہلی فسادات کے مقدمہ میں ضمانت کی سماعت کے دوران جے این یو کے سابق طالب علم و معروف سماجی کارکن عمر خالد کے معاملہ میں ایک بار پھر سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا جمہوری احتجاج کو دہشت گردی کے زمرے میں رکھ کر اختلافِ رائے کو خاموش کرایا جا سکتا ہے؟
سپریم کورٹ میں عمر خالد کی جانب سے پیش کی گئی دلائل نے واضح کر دیا کہ ان پر عائد الزامات نہ صرف غیر منصفانہ ہیں بلکہ یہ ایک پرامن شہری کی آواز کو دبانے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔
سینئر وکیل کپل سبل نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ سی اے اے کے خلاف احتجاج ایک جائز اور آئینی حق ہے اور اسے کسی صورت UAPA جیسے سخت ترین قانون کے تحت نہیں لایا جا سکتا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ’’چکا جام‘‘ کوئی نئی چیز نہیں۔ ہندوستان کی سیاسی تاریخ ایسے احتجاجات سے بھری پڑی ہے، جارج فرنانڈیز کی تحریک ہو یا گوجر آندولن، عوام نے ہمیشہ جمہوری طریقے سے اپنی بات رکھی ہے۔ اگر ان میں سے کسی پر بھی دہشت گردی کا مقدمہ نہیں بنا تو پھر چند طلبا پر ایسا سخت قانون کیوں؟
عدالت میں عمر خالد کی 17 فروری 2020 کی امراؤتی تقریر بھی سنائی گئی، جس میں انہوں نے صاف طور پر کہا تھا کہ “نفرت کا جواب محبت سے اور تشدد کا جواب امن سے دیا جائے۔” ایسی تقریر کو اشتعال انگیز کہنا یا اسے سازش سے جوڑنا نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ انصاف کے لیے خطرناک روایت قائم کرے گا۔
عمر خالد کے ساتھی کارکنان شرجیل امام، گلفشہ فاطمہ، حیدر اور رحمان نے بھی عدالت میں یہی فریاد رکھی کہ انہیں بغیر ٹرائل کے ’’خطرناک‘‘ اور ’’سازشی‘‘ قرار دیا جا رہا ہے، جب کہ ابھی تک کسی کو ایک بھی جرم میں سزا نہیں ہوئی۔ گلفشہ فاطمہ کے وکیل نے کہا کہ بغیر ٹرائل کے سالہا سال قید میں رکھنا آئینی اقدار کی خلاف ورزی ہے۔
یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ملک بھر میں لاکھوں لوگوں نے پرامن احتجاج کیا۔ اگر ان میں سے چند نوجوان جنہوں نے بولنے کا حوصلہ کیا آج دہشت گرد کہلا رہے ہیں، تو یہ ہماری جمہوریت کے لیے تشویش کی علامت ہے۔
عمر خالد اور دیگر کارکنان کا جرم صرف اتنا ہے کہ انہوں نے آئین کے دائرے میں رہ کر اپنی بات کہی۔ اختلاف رائے کو دبانے کے لیے UAPA کا استعمال انصاف نہیں، ناانصافی ہے۔ سپریم کورٹ سے امید ہے کہ وہ اس غلطی کو درست کرے گی اور ان نوجوانوں کو وہ آزادی واپس دلائے گی جس کے وہ حقیقی معنوں میں مستحق ہیں۔


