حیدرآباد (دکن فائلز) کانگریس کی رکن پارلیمنٹ پرینکا گاندھی واڈرا نے پیر کو وزیر اعظم نریندر مودی کے اس دعوے کی سخت تردید کی کہ جواہر لعل نہرو نے سبھاش چندر بوس کو لکھے ایک خط میں کہا تھا کہ ’ونڈے ماترم‘ کے پس منظر سے مسلمان مشتعل ہوسکتے ہیں۔ پرینکا گاندھی نے کہا کہ وزیراعظم نے خط کا صرف منتخب حصہ پڑھا اور اس کا مکمل سیاق و سباق چھپا لیا۔
انہوں نے 1937 میں نہرو کے نیتاجی کو لکھے گئے خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ”باقی اشعار کے خلاف جس اعتراض کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے، اسے دراصل سامودائک قوتوں نے گھڑا تھا“، لیکن وزیراعظم نے اسے ایوان میں نہیں پڑھا۔
اس سے قبل وزیراعظم مودی نے لوک سبھا میں کہا تھا کہ نہرو نے بوس کو خط میں محمد علی جناح کے احساسات سے اتفاق کیا تھا اور لکھا تھا کہ ’ونڈے ماترم‘ کا آنند مٹھ سے تعلق مسلمانوں کو بھڑکا سکتا ہے۔
پرینکا گاندھی نے وزیراعظم کے الزامات کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ مودی نے خط کا صرف ایک جملہ پڑھا، جبکہ نہرو نے اصل میں سامودائک طاقتوں کی جانب سے پیدا کیے گئے تنازع کا ذکر کیا تھا۔
انہوں نے نہرو کا اصل اقتباس پڑھ کر سنایا کہ ’موجودہ ہنگامہ بڑی حد تک سامودائک عناصر کی گھڑت ہے۔ ہم کسی صورت ان کے دباؤ میں نہیں جھک سکتے۔ جہاں حقیقی گلے شکوے ہوں، انہیں دور کرنا چاہیے۔‘
پرینکا گاندھی نے کہا کہ حکومت اس بحث کو جان بوجھ کر چھیڑ کر بنگال اسمبلی انتخابات کے لیے ماحول تیار کرنا چاہتی ہے۔ ان کے بقول پہلی نیت: بنگال انتخابات میں پولرائزیشن۔ دوسری نیت: آزادی کے رہنماؤں پر الزام تراشی اور تاریخ کو مسخ کرنا۔ تیسری نیت: بیروزگاری، مہنگائی، خواتین کے مسائل اور نوجوانوں کی تکالیف سے توجہ بھٹکانا۔
انہوں نے کہاکہ “ونڈے ماترم ہمارے ملک کی روح ہے… اس پر کیا بحث؟ وزیراعظم نے اس قومی گیت کو تنازع کا موضوع بنا کر گناہ کیا ہے۔” پرینکا گاندھی نے طنزیہ مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت اگر روز روز نہرو پر حملے کرنا چاہتی ہے تو، “ایک فہرست بنا لیجیے… 990 الزام، 9,999 الزام… وقت طے کر لیجیے۔ 10 گھنٹے، 40 گھنٹے، جتنے چاہیں۔ ایک بار سب سُن لیجیے اور ہمیشہ کے لیے یہ بحث بند کر دیجیے۔ پھر آئیں اور بات کریں عوامی مسائل پر۔”
انہوں نے کہا کہ حکومت کی سیاست ’ایونٹ مینجمنٹ‘ اور ’ڈائیورژن‘ پر مبنی ہے۔ پرینکا نے وزیر اعظم کی “کرونولوجی” کے جواب میں مکمل پس منظر بیان کیا کہ 1875 میں بینکم چندر چٹرجی نے ’ونڈے ماترم‘ کی پہلی دو بند لکھے۔ 1882 میں ’آنند مٹھ‘ میں مزید چار بند شامل کیے گئے۔ 1930 کی دہائی میں فرقہ وارانہ سیاست کے عروج کے باعث یہ نیا تنازع پیدا ہوا۔
بوس نے نہرو کو خط لکھ کر ٹیگور اور کانگریس ورکنگ کمیٹی میں بحث کا مشورہ دیا تھا۔ ٹیگور نے بھی لکھا کہ پہلے دو بند آفاقی ہیں، لیکن بعد کے بند فرقہ وارانہ تعبیر پیدا کرتے ہیں۔
پرینکا نے کہا کہ آزادی کے بعد 1950 میں ڈاکٹر راجندرس پرساد نے جب دو بند پر مشتمل ’ونڈے ماترم‘ کو قومی گیت قرار دیا توکہ “اس وقت نہ صرف نہرو، بلکہ ٹیگور، پٹیل، امبیڈکر اور جن سنگھ کے شیاما پرساد مکھرجی بھی موجود تھے اور کسی نے اعتراض نہیں کیا۔”
بی جے پی ارکان کی مداخلت پر پرینکا نے کہاکہ “آپ کی لڑائی انتخابات کے لیے ہے، ہماری ملک کے لیے۔ جتنے انتخابات ہاریں گے، تب بھی آپ کی غلط سوچ کے خلاف لڑتے رہیں گے۔”
پرینکا گاندھی کی معنیٰ خیز اور حقائق پر مبنی تقریر نے بی جے پی بجلی بن کر گری۔ پرینکا کی تقریر نے ایوان میں سیاسی گرماگرمی بڑھا دی، جس میں انہوں نے ماضی کے تنازعات سے حکومت کے انتخابی عزائم اور عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش پر شدید تنقید کی۔


