سنجولی مسجد کا 1915 سے ریکارڈ موجود، غیرقانونی کہنا غلط! فرقہ پرستوں کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ (ویڈیو دیکھیں)

حیدرآباد (دکن فائلز) سنجولی میں واقع مسجد کے انہدام کے معاملے میں ہماچل پردیش ہائی کورٹ سے جزوی راحت ملنے کے بعد آل ہماچل مسلم آرگنائزیشن نے اعلان کیا ہے کہ وہ مسجد کے لیے نیا تعمیراتی نقشہ میونسپل کارپوریشن کمشنر سے منظور کرانے کے لیے باقاعدہ کارروائی شروع کرے گی۔ اس سلسلے میں 1915 کے ریونیو ریکارڈ سمیت متعدد سرکاری دستاویزات کو بنیاد بنایا جائے گا جن میں مسجد کو باقاعدہ عبادت گاہ کے طور پر درج کیا گیا ہے۔

ہماچل مسلم آرگنائزیشن کے صدر نزاکت علی ہاشمی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسجد کی موجودگی سو سال سے بھی زیادہ عرصے سے قانونی طور پر ثابت شدہ ہے۔ “سنجولی کی یہ مسجد 1915 سے موجود ہے اور 1997–98 اور 2003 کے ریونیو ریکارڈز میں بھی اس کا اندراج ہے۔ اسے غیر قانونی کہنا درست نہیں۔ تنازعہ صرف بغیر نقشہ منظوری کے کی گئی تعمیرات سے متعلق ہے، مگر اسے بلا وجہ فرقہ وارانہ رنگ دیا جا رہا ہے۔”

سنجولی مسجد کے معاملے میں وقف بورڈ اور مسجد کمیٹی نے میونسپل کمشنر کے انہدامی حکم کو ضلع عدالت اور پھر ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ 3 مئی 2025 کو ایم سی کمشنر نے پوری مسجد کو غیر مجاز قرار دے کر انہدام کا حکم دیا۔ 30 اکتوبر کو ضلع عدالت نے کمشنر کے حکم کی توثیق کرتے ہوئے 30 دسمبر تک منہدم کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد چند ہندو تنظیموں نے بھی انہدام کے حق میں مظاہرے کیے۔

وقف بورڈ نے معاملہ ہائی کورٹ لے جایا، جہاں عدالت نے جزوی راحت فراہم کرتے ہوئے گراؤنڈ اور پہلی منزل کو تحفظ دیا، جبکہ دوسری، تیسری اور چوتھی منزل کے انہدام کے حکم پر عمل جاری رکھنے کی ہدایت دی۔ اس معاملہ کی اگلی سماعت 9 مارچ کو ہوگی۔

ہاشمی نے کہاکہ “پانچ منزلہ مسجد بغیر نقشہ منظور کرائے تعمیر کی گئی تھی، تاہم اوپری دو منزلیں اب منہدم کر دی گئی ہیں۔ ہم باقی ڈھانچے کو قواعد کے مطابق تبدیل کرنے کے لیے تیار ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ 2013 میں مسجد کمیٹی نے تین اضافی منزلوں کی تعمیر کے لیے نقشے کی درخواست دی تھی۔

90 دن تک میونسپل کارپوریشن نے کوئی اعتراض نہیں کیا، اس لیے اصولاً نقشہ منظور تصور ہوتا ہے۔ اس کے باوجود کمیونٹی عدالتی احکامات کی مکمل پاسداری کرے گی۔

ہماچل مسلم آرگنائزیشن اور وقف بورڈ جلد ہی میونسپل کارپوریشن کو نیا نقشہ منظور کرانے کے لیے درخواست دیں گے تاکہ ڈھانچے کو مکمل طور پر قواعد و ضوابط سے ہم آہنگ کیا جا سکے، کسی بھی خلاف ورزی کی نشاندہی ہونے پر اسے قانون کے مطابق درست کیا جا سکے۔

ہاشمی نے شدید تشویش ظاہر کی کہ کچھ عناصر اس معاملے کو ہندو–مسلم تنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، “یہ مسئلہ بلڈنگ رولز کا ہے، فرقہ وارانہ نہیں۔ باہر سے آکر ماحول خراب کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔ شملہ کی فضا کو خراب کرنے نہیں دیا جائے گا۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں