لوک سبھا میں اسدالدین اویسی کی گونج: “وَندے ماترم کو زبردستی مسلط کرنا آئین کے خلاف”، آئینی آزادی، مذہبی مساوات اور حب الوطنی پر دوٹوک مؤقف، راجناتھ کے غلط مذہبی حوالوں پر دلی تکلیف کا اظہار (ویڈیو ضرور دیکھیں)

حیدرآباد (دکن فائلز) لوک سبھا میں ’وندے ماترم‘ کی 150 ویں سالگرہ کے موقع پر ہونے والی خصوصی بحث میں اے آئی ایم آئی ایم صدر اور حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے اپنی مخصوص آئینی بصیرت، مدلل اندازِ گفتگو اور جرات مندانہ مؤقف سے نمایاں توجہ حاصل کی۔ اویسی نے واضح کیا کہ ہندوستان کی بنیاد ریاست اور مذہب کو الگ رکھنے پر رکھی گئی ہے، اور کسی شہری کی حب الوطنی کو کسی بھی مذہبی علامت یا نغمہ کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ “وندے ماترم کو وفاداری کا معیار بنانا، دراصل گاندھی، امبیڈکر، ٹیگور اور بوس کے نظریہ کو چھوڑ کر گوڈسے اور مذہبی قوم پرستی کے راستے کو قبول کرنے کے مترادف ہے۔” اویسی نے ہندوستان کو مختلف پھولوں سے سجے باغ سے تشبیہ دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر اس باغ میں صرف ایک ہی پھول کو کھلنے کی اجازت دی جائے تو پورا باغ صحرا میں تبدیل ہو جائے گا۔

حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ نے زور دیا کہ آئین کا آرٹیکل 25 ہر شہری، خاص طور پر مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی دیتا ہے، اور کسی بھی شہری کو کسی دیوی، دیوتا یا نغمہ کے سامنے جھکنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اپنی تقریر میں اویسی نے نہایت جامع انداز میں کہا کہ مسلمان ہونے سے ہندوستان سے محبت میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی۔

انہوں نے واضح کیاکہ “ہم پر حملے ہوں، ہمارے گھروں پر ہو یا عبادت گاہوں پر ہم اس ملک سے محبت کرتے ہیں اور ہمیشہ کرتے رہیں گے۔ مگر حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ مانگنا غلط ہے۔” اویسی نے وزیر اعظم کی تقریر پر بھی اعتراض کرتے ہوئے تاریخی حوالوں سے بتایا کہ 1942 میں کانگریس سے اختلاف رکھنے والی جماعتیں کس طرح برطانوی حکومت کے ساتھ کام کر رہی تھیں۔

وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کے بعض مذہبی حوالوں پر بھی انہوں نے سخت ناراضگی ظاہر کی اور کہا کہ مذہبی اصطلاحات کو غلط تناظر میں پیش کرنا تکلیف دہ ہے۔ اپنی تقریر کے آغاز اور اختتام میں اویسی نے بار بار اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ آئین کا پہلا صفحہ ‘‘ہم ہندوستان کے لوگ’’ سے شروع ہوتا ہے، نہ کہ کسی مذہبی علامت سے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ آئین فکر، اظہار، مذہب اور عبادت کی مکمل آزادی دیتا ہے، لہٰذا کسی بھی شہری کو زبردستی کسی خاص مذہبی انداز میں حب الوطنی ثابت کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

سیاسی مبصرین کے مطابق اویسی کی تقریر نہ صرف آئینی حوالوں سے مضبوط تھی بلکہ پارلیمانی وقار، قانونی استدلال اور اقلیتوں کے آئینی حقوق کے دفاع کی ایک مؤثر مثال بھی بنی۔ ان کے دلائل نے بحث کے ماحول میں وہ پہلو سامنے رکھے جنہیں اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں