’مر جانا قبول ہے، مگر شرک قبول نہیں‘! وندے ماترم پر مولانا ارشد مدنی کا دوٹوک بیان

حیدرآباد (دکن فائلز) پارلیمنٹ میں وندے ماترم کے 150 برس مکمل ہونے پر ہونے والی بحث کے بیچ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کے تازہ بیان نے قومی گیت پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ مولانا مدنی نے واضح کیا کہ مسلمانوں کو کسی دوسرے شہری کے وندے ماترم پڑھنے یا گانے پر کوئی اعتراض نہیں، مگر خود مسلمان اس کے مکمل اشعار نہیں پڑھ سکتے کیونکہ بعض اشعار اسلامی عقیدۂ توحید کے خلاف ہیں۔

مولانا مدنی نے کہا کہ وندے ماترم کے چار اشعار میں مادرِ وطن کو ’’درگا ماتا‘‘ سے تشبیہ دی گئی ہے اور اس کی عبادت کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، جو اسلام میں شرک کے زمرے میں آتے ہیں۔ انہوں نے کہا، “ہم ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اس کے سوا کسی کو سجدہ یا پوجا نہیں کرسکتے۔ مر جانا قبول ہے، مگر شرک قبول نہیں۔”

انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسی شہری کو اس کے مذہبی عقیدے کے خلاف کوئی نعرہ یا گیت بولنے یا گانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہندوستان کا دستور ہر شہری کو مذہبی آزادی (آرٹیکل 25) اور اظہارِ رائے کی آزادی (آرٹیکل 19) فراہم کرتا ہے۔ مولانا مدنی نے سپریم کورٹ کے اس اصول کا حوالہ بھی دیا کہ قومی ترانہ سمیت کوئی بھی ایسا گیت جس کے الفاظ مذہبی عقائد کے خلاف ہوں، اس کے لیے کسی شہری پر جبر نہیں کیا جا سکتا۔

مولانا مدنی نے کہا کہ “وطن سے محبت الگ چیز ہے اور اس کی عبادت دوسری چیز۔ مسلمانوں کی حب الوطنی کے لیے کسی سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں۔ آزادی کی جدوجہد میں مسلمانوں کی قربانیاں تاریخ کا روشن باب ہیں، اور جمعیۃ علماء ہند نے تقسیمِ ہند کی مخالفت کرکے اس ملک کی سالمیت کے لیے جو کردار ادا کیا، وہ ناقابلِ فراموش ہے۔”

مولانا مدنی نے کہا کہ تاریخی ریکارڈ اس بات کا ثبوت ہے کہ 26 اکتوبر 1937 کو رابندرناتھ ٹیگور نے پنڈت جواہر لال نہرو کو خط لکھ کر مشورہ دیا تھا کہ وندے ماترم کے صرف ابتدائی دو بندوں کو قومی گیت کے طور پر منتخب کیا جائے کیونکہ باقی اشعار توحید پرست مذاہب کے عقائد سے متصادم ہیں۔ اسی مشورے کی بنیاد پر 29 اکتوبر 1937 کو کانگریس ورکنگ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ صرف دو بند ہی قومی گیت کا حصہ ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ آج ٹیگور کے نام کا استعمال کرتے ہوئے مکمل نظم کو لازمی قرار دینے کی کوشش نہ صرف تاریخی حقائق کو مسخ کرتی ہے بلکہ قومی وحدت کے جذبے کے بھی خلاف ہے۔ “یہ افسوس ناک ہے کہ اس مسئلے کو تقسیمِ ہند سے جوڑا جا رہا ہے، جبکہ ٹیگور کا مشورہ قومی یکجہتی کے لیے تھا، سیاسی فائدے کے لیے نہیں۔”

مولانا مدنی نے تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی کہ وہ اس حساس مذہبی اور تاریخی معاملے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہ کریں، بلکہ آئینی اصولوں، باہمی احترام اور رواداری کو مقدم رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ وندے ماترم بنکم چندر چٹرجی کے ناول آنند مٹھ سے اخذ کردہ نظم ہے اور اس کے کئی حصے واضح طور پر ایک دیوی کی تعریف میں ہیں، نہ کہ مادرِ وطن کے لیے۔ “ہم ایک خدا کے ماننے والے ہیں۔ اللہ کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے۔ اس لیے یہ گانا ہماری مذہبی تعلیمات کے خلاف ہے، چاہے اس کی کوئی بھی سیاسی توجیح پیش کی جائے۔”

مولانا مدنی کے دوٹوک بیان کے بعد سیاسی حلقوں میں بحث تیز ہوگئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں