حیدرآباد (دکن فائلز) مدھیہ پردیش کے سنگرولی ضلع میں فیس بک دوستی سے شروع ہونے والے تعلق نے ایک بیوہ خاتون کی زندگی میں شدید مالی اور جذباتی تباہی مچا دی۔ دو بچوں کی ماں امریں احمد نے الزام لگایا ہے کہ ایک شخص نے شادی اور محبت کا جھانسہ دے کر ان سے تقریباً 2 کروڑ روپے، سونے کے زیورات، قیمتی سامان اور پنشن کی رقم ہڑپ لی۔
یہ واقعہ صرف ایک فرد کی کہانی نہیں بلکہ ہر اس خاتون کے لیے بڑا سبق ہے جو سوشل میڈیا پر اجنبی تعلقات پر بھروسہ کرتی ہے۔ امریں احمد، جو NCL کرشن شیلا پروجیکٹ میں ملازمت کرتی ہیں، شوہر کی وفات کے بعد اپنے بچوں کی پرورش میں مصروف تھیں۔ اسی دوران فیس بک پر ان کی دوستی آویناش یادو سے ہوئی۔ تعلقات بڑھتے گئے اور فروری 2024 میں دونوں نے اڑیسہ میں کورٹ میرج کرلی۔
لیکن شادی کے فوراً بعد ہی آویناش کا رویہ بدل گیا۔ امریں کے مطابق وہ مارپیٹ، ہراساں کرنے اور مالی مطالبات میں ملوث رہا۔ بعد میں انکشاف ہوا کہ وہ پہلے سے شادی شدہ تھا اور اس نے یہ حقیقت چھپائی تھی۔ شکایت کے مطابق ملزم نے دھوکے سے امریں سے تقریباً 2 کروڑ روپے، قیمتی سونے کے زیورات، پینشن کی رقم، اور دیگر قیمتی سامان سب کچھ ہتھیالیا اور پھر فرار ہوگیا۔
سنگرولی نگر پولیس نے معاملہ درج کرلیا ہے۔ ملزم آویناش یادو اور اس کے گھر والے فرار ہیں۔ امریں نے اپنی حفاظت کے لیے پولیس سیکیورٹی کی درخواست بھی کی ہے۔ امریں انصاف کی تلاش میں گورکھپور پہنچیں جہاں انہوں نے یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے عوامی دربار میں تحریری شکایت دی۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ نے مکمل کارروائی کی یقین دہانی کرائی ہے۔
یہ واقعہ ہر عمر، ہر مذہب اور ہر طبقے کی خواتین کے لیے ایک مضبوط یاددہانی ہے کہ سوشل میڈیا پر اجنبی تعلقات غیر محفوظ ہو سکتے ہیں۔ چاہے بات کتنی بھی میٹھی ہو، اعتماد وقت کے ساتھ بنتا ہے “چند مہینوں کی دوستی” زندگی کا فیصلہ نہیں بننی چاہیے۔
کسی شخص کو بڑی رقم، زیورات یا پنشن تک رسائی دینا ہمیشہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ اسلام ہو یا کوئی بھی مذہب، سب یہی سکھاتے ہیں کہ احتیاط، ذمہ داری، عفت اور سوچ سمجھ کر فیصلے کرنا چاہئے۔ زندگی میں بہت سی مشکلات اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب انسان جذبات میں آکر ایسے فیصلے کرلیتا ہے جن کا انجام نقصان دہ ہوتا ہے۔
اکیلے فیصلے کبھی کبھار بڑی مصیبت کا باعث بن سکتے ہیں۔ اپنی عزت، اپنی رقم، اپنے بچوں کا مستقبل اور اپنے دین و ایمان کی حفاظت سب سے پہلی ذمہ داری ہے۔ سوشل میڈیا پر اس واقعہ کو بھگوا لو ٹریپ سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ ’اب بھگوا لو ٹریپ سے مسلم بیوہ خواتین بھی محفوظ نہیں ہیں‘۔


