مسلم شادیوں میں جہیز کی لعنت نے مہر کی اصل روح کو ختم کردیا: سپریم کورٹ کا انتہائی اہم تبصرہ

حیدرآباد (دکن فائلز) لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے جہیز کے سبب ہونے والی اموات جیسے سنگین سماجی مسئلے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کے انسداد کے لیے عمومی ہدایات جاری کیں۔ عدالتِ عظمیٰ نے الہٰ آباد ہائی کورٹ کے اُس فیصلے کو بھی کالعدم قرار دے دیا، جس میں شوہر اور اس کی ماں کو بری کر دیا گیا تھا، حالانکہ ٹرائل کورٹ نے انہیں 20 سالہ خاتون کو زندہ جلانے کا مجرم پایا تھا۔ خاتون کو اس لیے قتل کیا گیا کیونکہ وہ رنگین ٹی وی، موٹر سائیکل اور 15 ہزار روپے کے جہیز کے مطالبات پورے نہ کر سکی تھی۔

جسٹس سنجے کرول اور جسٹس این کے سنگھ پر مشتمل بنچ نے یہ فیصلہ سنایا۔ جسٹس سنجے کرول کی تحریر کردہ مفصل فیصلے میں جہیز کی تاریخی پس منظر اور اس کے سماجی ارتقا کا جائزہ لیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ ابتدا میں جہیز شادی کے وقت بیٹی کو اس کی ذاتی ملکیت اور مالی خودمختاری کے لیے ایک رضاکارانہ تحفہ ہوتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ یہ ایک “ضروری روایت” میں تبدیل ہو گیا۔

فیصلے میں وضاحت کی گئی کہ جہیز کا رواج ہائپرگیمی سے جڑ گیا، یعنی ذات، حیثیت یا سماجی مرتبے میں “اوپر” شادی کرنے کی روایت، جس کا مقصد نسب اور خاندانی وقار کو برقرار رکھنا تھا۔ چونکہ نسب پدرانہ نظام کے تحت چلتا ہے، اس لیے بیٹیوں کو مساوی یا اعلیٰ درجے کے خاندانوں میں بیاہنے کی خواہش نے بڑے جہیز کو لازم بنا دیا۔ جسٹس کرول کے مطابق، یہ روایت بالخصوص اعلیٰ ذاتوں میں سختی سے رائج رہی، جہاں بڑی جہیز کو ترغیب کے طور پر استعمال کیا گیا، اور یوں یہ ہندو معاشرے میں ایک وسیع ثقافتی عمل بن گئی۔

عدالت نے کہا کہ وقت کے ساتھ ہائپرگیمی صرف ذات تک محدود نہیں رہی بلکہ دولت، زمین اور سیاسی اثرورسوخ سے بھی وابستہ ہو گئی۔ قرونِ وسطیٰ میں شاہی خاندانوں نے اتحاد بنانے کے لیے اور بعد میں جاگیردار طبقے نے طاقت کے استحکام کے لیے اس روایت کو اپنایا، جس سے جہیز اور سماجی ترقی کے درمیان گہرا تعلق قائم ہو گیا۔

عدالت نے نشاندہی کی کہ اگرچہ قانوناً جہیز ممنوع ہے، مگر آج بھی یہ عمل جاری ہے اور خواتین کی فلاح و بہبود سے مکمل طور پر لاتعلق ہو چکا ہے۔ اب اسے ’گروُم پرائس تھیوری‘ کہا جاتا ہے، جس کے تحت جہیز کی مقدار دولہے کی تعلیم، سماجی حیثیت اور آمدنی کی بنیاد پر طے ہوتی ہے۔ جسٹس کرول نے کہا کہ اس کے نتیجے میں خواتین کے خلاف ایک منظم اور ہمہ گیر تعصب پیدا ہو گیا ہے، جہاں عورت کی قدر دولہے کی قیمت کے مقابلے میں کم تر سمجھی جاتی ہے۔

مسلم معاشرے میں جہیز اور مہر
عدالت نے کہا کہ اگرچہ مسلم معاشرے میں جہیز ممنوع ہے اور مہر ایک لازمی حق ہے جو نکاح کے وقت شوہر کی جانب سے بیوی کو دیا جاتا ہے اور مکمل طور پر اسی کی ملکیت ہوتا ہے، مگر ثقافتی، معاشی اور دیگر عوامل کے امتزاج نے جہیز کو مسلم معاشروں میں بھی رائج کر دیا ہے۔ جسٹس کرول کے مطابق، مختلف ثقافتی اثرات اور سماجی مقابلہ آرائی کے باعث مہر کی اصل روح اور حفاظتی حیثیت متاثر ہوئی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ہندوستان میں بہت سی مسلم شادیوں میں مہر تو مقرر کیا جاتا ہے، مگر اکثر صرف برائے نام، جبکہ اصل مالی لین دین دلہن کے خاندان سے دولہے کے خاندان کی طرف ہوتا ہے۔ اس طرح مہر کا وہ مقصد، جو عورت کو معاشی تحفظ فراہم کرنے کے لیے تھا، کھوکھلا ہو جاتا ہے اور عورت طلاق یا بیوگی کی صورت میں زیادہ کمزور ہو جاتی ہے۔

عدالت نے کہا کہ مہر اور جہیز کے اس دوہرے نظام کے نتیجے میں لڑکی والوں پر شدید مالی بوجھ پڑتا ہے، بعض اوقات شادیوں میں تاخیر یا رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے، اور یہ رجحان ہراسانی، گھریلو تشدد اور حتیٰ کہ جہیز کے نام پر قتل جیسے جرائم کو بھی جنم دیتا ہے۔ یہ مسائل کسی ایک مذہب تک محدود نہیں بلکہ تمام طبقات اور مذاہب میں پائے جاتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے زور دے کر کہا کہ جہیز کا خاتمہ ایک فوری آئینی اور سماجی ضرورت ہے اور اس سماجی ناسور کے خلاف اجتماعی اور مؤثر اقدامات ناگزیر ہیں۔

کیس کی تفصیل:
اسٹیٹ آف یوپی بنام اجمل بیگ و دیگر
فوجداری اپیل نمبر 132-133/2017

اپنا تبصرہ بھیجیں