اخلاق لنچنگ کیس: یوگی حکومت کی مقدمہ واپسی کی عرضی کو گورنر کی منظوری، سِول سوسائٹیز میں تشویش لیکن مسلم تنظیمیں خاموش!

حیدرآباد (دکن فائلز) اتر پردیش کے بدنامِ زمانہ اخلاق لنچنگ کیس میں ایک بار پھر سیاسی اور سماجی ہلچل تیز ہو گئی ہے۔ ریاستی حکومت کی جانب سے اس مقدمے کو واپس لینے کی درخواست پر گورنر آنندی بین پٹیل کی منظوری کے بعد سِول سوسائٹی، انسانی حقوق کارکنوں اور قانونی ماہرین نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قدم نہ صرف انصاف کے عمل کو کمزور کرتا ہے بلکہ آئینی اقدار اور اقلیتوں کے تحفظ پر بھی سنگین سوالات کھڑے کرتا ہے۔

ان سب کے باوجود اب تک کسی مسلم تنظیم نے اس معاملہ پر کوئی ردعمل نہیں دیا ہے اور نہ ہی اس معاملہ میں کسی قانونی لڑائی کا اعلان کیا گیا ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، اتر پردیش حکومت نے 2015 کے دادری لنچنگ کیس میں تمام ملزمین کے خلاف چل رہے مقدمے کو واپس لینے کے لیے عدالت سے اجازت طلب کی ہے۔ اس سلسلے میں ریاستی حکومت کے خصوصی وکیل نے ضلع گوتم بدھ نگر کی فاسٹ ٹریک عدالت کو مطلع کیا کہ آئینی تقاضوں کے مطابق گورنر کی منظوری حاصل کر لی گئی ہے۔ اب عدالت اسی ہفتہ اس عرضی پر اپنا فیصلہ سنانے والی ہے۔

قانونی ماہرین کے مطابق، کسی فوجداری مقدمہ کو واپس لینے کے لیے ضابطۂ فوجداری کے تحت ریاستی حکومت کو گورنر کی اجازت درکار ہوتی ہے، تاہم ایسے سنگین جرائم جیسے قتل اور قتل کی کوشش میں اس اختیار کے استعمال کو انتہائی غیر معمولی اور متنازع قرار دیا جا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ جرم کے تقریباً دس برس بعد، جب مقدمہ آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، اس طرح کی کارروائی انصاف کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔

واضح رہے کہ 28 ستمبر 2015 کو ضلع دادری کے بساہڑہ گاؤں میں ایک مشتعل ہجوم نے 52 سالہ محمد اخلاق کو ان کے گھر سے گھسیٹ کر بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔ ہجوم کا الزام تھا کہ ان کے گھر میں گائے کا گوشت رکھا گیا ہے۔ اس حملے میں اخلاق کے بیٹے دانش شدید زخمی ہوئے تھے۔ بعد ازاں فرانزک جانچ میں یہ بات سامنے آئی کہ فریج سے برآمد گوشت گائے کا نہیں تھا۔ اس واقعہ نے ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی تھی اور یہ گاؤ رکشا کے نام پر ہونے والے ہجومی تشدد کی علامت بن گیا تھا۔

کئی برس کی تاخیر کے بعد 2022 میں اس مقدمہ کی باقاعدہ سماعت شروع ہوئی۔ استغاثہ کے بیشتر اہم گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہو چکے ہیں اور صرف چند گواہان کا بیان باقی ہے۔ ایسے میں حکومت کی جانب سے مقدمہ واپس لینے کی درخواست کو سِول سوسائٹی انصاف کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دے رہی ہے۔

سماجی کارکنوں اور انسانی حقوق تنظیموں کا کہنا ہے کہ قتل جیسے سنگین جرم میں ریاست کا پیچھے ہٹنا خطرناک مثال قائم کرے گا۔ ان کے مطابق، اس سے اقلیتوں کے خلاف تشدد کے معاملات میں سزا سے بچ نکلنے کا رجحان مضبوط ہوگا اور قانون کی بالادستی پر عوام کا اعتماد متزلزل ہو جائے گا۔ سِول سوسائٹی نے خبردار کیا ہے کہ اگر عدالت نے اس عرضی کو منظور کر لیا تو یہ فیصلہ جمہوری اداروں اور آئینی تحفظات کے لیے دور رس منفی اثرات کا باعث بن سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں