گوالیار ہائی کورٹ کی بنچ نے مذہب تبدیل کرکے مذہبی اداروں سے نکاح نامہ حاصل کرنے سے متعلق اہم فیصلہ سنایا ہے۔
ہائی کورٹ نے کہا کہ مدہبی اداروں کو کسی مرد یا عورت کا مذہب تبدیل کرانے کا حق حاصل نہیں ہے۔ مسلمان سے ہندو بننے والی لڑکی کے معاملے میں ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ناری نکیتن میں رہنے والی اس لڑکی کو ایک ہفتے کے اندر وہاں سے آزاد کردیا جائے۔
عدالت نے کہا کہ لڑکا بالغ ہے۔ اس لیے وہ کہیں بھی جانے کےلیے آزاد ہے۔ اگر لڑکی اپنے والدین کے ساتھ جانے کےلیے تیار نہیں ہے تو وہ اپنے عاشق کے ساتھ بھی جاسکتی ہے۔
دراصل گوالیار کے رہنے والے راہل یادو اور حنا خان نامی لڑکی نے غازی آباد کے آریہ سماج مندر سے مذہب تبدیل کرکے شادی کی سند حاصل کی تھی۔ اس دوران لڑکی کے گھر والوں نے راہل کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔ لڑکے اور لڑکی کو پولیس نے بازیاب کرلیا تاہم لڑکی اپنے والدین کے ساتھ جانے کےلیے تیار نہیں ہوئی جس کے بعد اسے ناری نکیتن بھیج دیا گیا۔
ہائی کورٹ نے کہا کہ کوئی مذہبی ادارہ کسی کو مذہب تبدیل نہیں کراسکتا۔ مذہب تبدیل کرنے کے خواہشمند اپنی درخواست ضلع کلکٹر کو دے سکتے ہیں۔