72 حوریں: کتنی حقیقت؟ کتنا فسانہ؟ (محمد رضی الاسلام ندوی)

(محمد رضی الاسلام ندوی)
باولے کتّے کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری کو Rabies کہتے ہیں۔ اس کی ایک نمایاں علامت یہ ہے کہ اس میں مبتلا شخص پانی کو دیکھ وحشت زدہ ہوجاتا ہے اور چیخ و پکار کرنے لگتا ہے۔ اس علامت کو ‘فزع الماء’ (Hydrophobia) کہا جاتا ہے۔ ٹھیک یہی معاملہ گزشتہ کچھ عرصے سے اسلام کا ہے۔ عالمی سطح پر اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے شیطان اور اس کے کارندے بہت پریشان ہیں اور ان پر بُری طرح خوف اور دہشت طاری ہے۔ وہ Islamophobia میں مبتلا ہیں۔ اپنے ملک عزیز ہندوستان میں بھی اسلاموفوبیا میں مبتلا افراد کی تعداد کم نہیں ہے۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے ہر جتن کررہے ہیں۔ اس کا بڑا مؤثر ذریعہ فلمیں اور سیریلس ہیں، جن کے ذریعے وہ ذہنوں کو بڑے پیمانے پر مسموم کررہے ہیں۔ کشمیر فائلس، کیرلا اسٹوری اور اجمیر 92 کے بعد ان دنوں نئی فلم ’72 حوریں’ کا چرچا ہے، جس کا ٹیزر جاری کردیا گیا ہے اور وہ بہت جلد ریلیز ہونے والی ہے۔

72 حوریں نامی فلم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ دنیا میں جتنے بڑے بڑے دہشت گردانہ واقعات ماضی قریب میں ہوئے ہیں، جیسے امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی اور ہندوستان میں 26/11 کا دہشت گردانہ واقعہ۔ یہ سب مسلمانوں کی کارستانی ہے۔ ان واقعات کی تصویروں کے ساتھ اسامہ بن لادن، اجمل قصاب، یعقوب میمن، مسعود اظہر اور حافظ سعید کے فوٹوز دکھاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان دہشت گردانہ حملوں کو، جن میں ہزاروں معصوم انسانوں کی جانیں ضائع ہوئی ہیں، انجام دینے والے تمام افراد مسلمان ہیں۔ انہیں مذہبی جنون میں مبتلا کرکے اور ان کی برین واشنگ کرکے انہیں خودکش بمباروں کی شکل میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ انہیں پڑھایا جاتا ہے کہ یہ عمل جہاد ہے اور اس راہ میں اپنی جان کی قربانی پیش کرنے والا شہید ہے، جو جنّت کا مستحق بنتا ہے، جہاں اس کے جنسی تلذّذ کے لیے اسے 72 حوریں یعنی حسین ترین عورتیں ملیں گی۔

اس وقت یہ بحث کرنے کا موقع نہیں ہے کہ یہ دہشت گردانہ واقعات واقعی مسلمانوں نے انجام دیے ہیں، یا بلا تحقیق و ثبوت ان کی طرف غلط طور سے منسوب کردیے گئے ہیں۔ یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ دہشت گردی اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ جو مذہب ایک انسان کو بلا قصور قتل کرنے کو دنیا کے تمام انسانوں کو قتل کرنے کے برابر سمجھتا ہے وہ دہشت گردانہ حملوں کی کیوں کر اجازت دے سکتا ہے؟! اس وقت صرف اس موضوع پر کچھ اظہارِ خیال کرنا مقصود ہے کہ جنّت میں 72 حوروں کی کیا حقیقت ہے، جس کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے؟

اسلامی نقطۂ نظر سے یہ دنیا امتحان گاہ ہے ۔ یہاں انسان جیسے کام کریں گے ان کا بدلہ مرنے کے بعد برپا ہونے والی دوسری دنیا میں پائیں گے، جسے آخرت کہا گیا ہے۔ دنیا فانی ہے اور آخرت ہمیشہ باقی رہنے والی۔ دنیا میں جو لوگ اچھے کام کریں گے وہ ان کا بدلہ آخرت میں جنّت کی شکل میں پائیں گے، جہاں ہر طرح کی نعمتیں ہوں گی اور جو لوگ یہاں بُرے کام کریں گے انہیں آخرت میں ان کا بدلہ جہنم کی شکل میں ملے گا، جس میں ہر طرح کی تکلیف دہ چیزیں ہوں گی۔

قرآن و حدیث میں جنت کی نعمتوں اور جہنم کی سزاؤں کا تذکرہ بہت تفصیل سے کیا گیا ہے۔ لیکن وہ محض تقریبِ فہم کے لیے ہے۔ کوئی شخص ان کی حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتا، اس لیے کہ انسانی عقل ان کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ حدیث میں کہا گیا ہے کہ جنت می ایسی ایسی نعمتیں ہوں گی جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا، نہ کسی کان نے سنا ہوگا اور نہ وہ کسی کے حاشیۂ خیال میں آئی ہوں گی۔ (بخاري : 4779، مسلم : 2824)

قرآن و حدیث میں حوروں کا بھی تذکرہ ہے۔ اس سے مراد خوب صورت عورتیں ہیں۔ جیسے دنیا میں مردوں کے لیے عورتیں اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں، جن سے لطف و سرور اور سکینت و طمانینت حاصل ہوتی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان مردوں کو جنّت میں بھی اس نعمت سے نوازے گا۔ حوروں کا بس یہ تصور ہے، جو قرآن مجید اور صحیح احادیث سے ثابت ہے۔

قرآن میں حوروں کی تعداد کا کہیں ذکر نہیں۔ بعض صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مومن کو جنّت میں دو حوریں ملیں گی۔ (بخاری : 3245، مسلم : 2834) محدثین نے لکھا ہے کہ جیسے قرآن میں دو جنّتوں اور دو چشموں کا تذکرہ ہے اسی طرح حدیث میں دو بیویوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ جہاں تک 72 حوروں کا تعلق ہے، اس کا تذکرہ کسی صحیح حدیث میں نہیں ہے۔ مشہور محدثین نے یہ بات صراحت سے کہی ہے۔ مثلاً علامہ ابن تیمیہ ( مجموع الفتاوی :432/6)، علامہ ابن کثیر (341/20)، علامہ ابن حجر (فتح الباری :325/6) وغیرہ۔ علامہ ابن قیم الجوزیہ کی ایک کتاب ہے : حادي الأرواح لبلاد الأفراح۔ اس میں جنت اور اس کی نعمتوں کا تذکرہ بہت تفصیل سے کیا گیا ہے۔ اس میں علامہ ابن قیم نے صراحت کی ہے کہ صحیح احادیث میں دو بیویوں سے زیادہ کا تذکرہ نہیں ہے۔ (ص 157)

یہ بات درست ہے کہ بہت سی احادیث و روایات میں 72 حوروں کا ذکر ہے۔ یہی نہیں، بلکہ بعض احادیث میں سو، پانچ سو، چار ہزار، بلکہ آٹھ ہزار حوروں کا ذکر ہے، لیکن یہ تمام احادیث ضعیف، بلکہ ان میں بہت سی موضوع یعنی من گھڑت ہیں۔ اسلام دشمن لوگ قرآن مجید میں تو تحریف نہ کرسکے اور اس کا ایک حرف بھی بدلنے پر قادر نہ ہوسکے تو انھوں نے بے بنیاد اور من گھڑت حدیثیں پھیلادیں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے امت کے محدثین اور ناقدینِ حدیث کو، جنھوں نے احادیث میں سے صحیح، ضعیف اور موضوع کو چھانٹ کر الگ الگ کردیا۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض علماء اب بھی اپنے خطبات و مواعظ میں اعمال کے فضائل بیان کرتے ہوئے ان کے بدلے میں ملنے والی جنت کی نعمتوں کا تذکرہ کرتے ہیں تو حوروں کے حسن و جمال، ان کی ہیئت، قد و قامت اور دوسری چیزوں کا تذکرہ بہت مزہ لے لے کر کرتے ہیں۔ جنّت کی خواہش اور رغبت پیدا کرنے کے لیے بہت سی صحیح حدیثیں ہیں، انہیں پیش کیا جانا مناسب ہے۔ ان واعظین کو معلوم ہونا چاہیے کہ ضعیف اور موضوع حدیثیں پیش کرکے وہ دین کی کوئی خدمت نہیں کررہے ہیں، بلکہ اس کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی معروف مصنف اور دانش ور ہیں۔ موصوف شعبۂ اسلامی معاشرہ، جماعت اسلامی ہند کے مرکزی سکریٹری اور سہ ماہی مجلہ تحقیقات اسلامی کے نائب مدیر ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں