شہادتوں کا انتظار: اسرائیلی حملوں میں شہادت پر شناخت کیلئے والدین بچوں کے ہاتھوں‘ پیروں پر نام لکھنے لگے

العربیہ اردو کی رپورٹ کے مطابق غزہ کے لوگوں کی شہرت کئی حوالوں سے منفرد ہے۔ مگر بموں کے سائے میں پل کر جوان ہونے والے اہل غزہ نے سترہویں دن میں داخل ہوتی جنگ کے دوران مسلسل بمباری کے باوجود کسی کمزور دلی کا مظاہرہ کرنے کا تاثر نہیں دیا ہے۔

نہ صرف وہ خود روزانہ کی بنیاد بیسیوں اور بیسیوں سے بڑھ کر سینکڑوں کی تعداد میں اپنی جانیں دے کر بھی اسرائیل کی دن رات ہونے والی بمباری کے سامنے کھڑے ہیں۔ وہیں ان کا اپنے نو عمر اور کم سن بچوں کو اس جنگ کے دوران آزادی فلسطین و قبلہ اول کے لیے قربان کرنا چنداں مشکل یا بوجھل نہیں لگ رہا ہے۔

جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا ۔۔۔ یہ معاملہ ایسا ہو گیا ہے کہ عربوں کی روایتی اور قدیمی بہادری کی یاد تازہ ہونے لگی ہے۔

فلسطین کی بہادر مائیں اپنی کم سن بچیوں، بچوں اور نو عمر بچیوں اور بچوں کے ہاتھوں اور پیروں پر ان کے نام اس لیے تحریر کرنے لگی ہیں کہ جب اسرائیلی بمباری کے دوران یہ گھروں کے منوں اور ٹنوں کے حساب سے ڈھیر بنے ملبے کے نیچے دب جائیں اور جام شہادت نوش کرنے کے بعد ملبے کے نیچے دبے ہوں یا بموں کے آہنی پارچے لگ جانے سے ان چہرے پہچان کے قابل نہ رہیں تو ہاتھوں یا پیروں پر لکھے ناموں کی وجہ سے پہچان آسان ہو جائے۔

بین الاقوامی ادارے سے وابستہ ایک میڈیا ورکر نے غزہ کے وسط میں قائم شہدا ئے اقصیٰ ہسپتال میں ایک شہید عرب فلسطینی بچے کی ایسی لاش اور تین ایسے بچے دیکھے جن کے جسموں پر عربی میں ان کے نام تحریر تھے۔

میڈیا ورکرز کے مطابق یہ چیز انہیں پہلی بار اسی غزہ میں دیکھنے کو ملی ہے۔ کہ والدین اپنے بچوں کے نام ان کے جسموں، ہاتھوں اور پیروں پر لکھ رہے ہیں۔

یہ نام لکھنے والی فلسطینی ماؤں اور باپوں کے حوصلے ہیں کہ انہیں معلوم ہے وہ بچوں کو کسی بھی وقت اسرائیلی بمباری سے کھو سکتے ہیں۔ اور اس طرح کھو سکتے ہیں کہ ان کی شناخت بھی شاید مشکل ہو جائے۔ مگر پھر بھی وہ اسی غزہ میں کھڑے ہوئے، ڈٹے ہوئے ہیں۔ عرب اپنی اسی بہادری پر تو فخر کیا کرتے تھے اور اس بہادری میں عرب خواتین بھی پیچھے نہ تھیں۔

غزہ اور غزہ سے باہر جہاں سنگ وخشت کی بلڈنگز اور بڑے اونچے ٹاور ملبے کا ڈھیر بن رہے ہیں وہیں عربوں کی روایتی جرات و بہادری کے نئے مینارے کھڑے ہو رہے ہیں۔ اونچے اور سب سے اونچے مینارے، جو مسجد اقصیٰ کے میناروں سے باتیں کرتے ہوں گے۔

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ غزہ جہاں بچوں کی شہادتیں دو ہزار کے لگ بھگ ہو چکی ہیں ایسے بہت سے بچے لاپتا بھی ہیں۔ بمباری سے ہونے والی شہادتوں میں شناخت کا باقی نہ رہنا عام سی بات ہے۔

اسی کا توڑ اہل غزہ نے اپنے بچوں تک کے لیے کرنا شروع کر دیا ہے، کوئی ماں اور باپ ایسا ہے کہ اس طرح اپنے بچوں کو شہادت کے لیے تیار کرتا ہو۔ ہاں غزہ والے ہیں۔ فلسطین والے ہیں۔ ہاں یہ عرب والے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں