اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق غزہ میں 24 لاکھ آبادی میں 50 ہزار خواتین حاملہ ہیں، ان میں جو زندہ بچ پائیں یا ان کے بچے پیدائش سے قبل ہی اسرائیلی بمباری یا محاصرے کی وجہ سے موت سے ہم آغوش نہ ہو گئے تو یہ 50 ہزار خواتین اگلے دنوں، ہفتوں یا مہینوں میں ماں بنے والی ہیں۔ ان میں 5500 حاملہ خواتین کے ماں بننے کا وقت بالکل قریب ہے (بشرط زندگی)، گویا اگلے دو سے تین یا چار ماہ میں یہ 5500 خواتین ماں بننے کے وقت کو پہنچ سکتی ہیں۔
العربیہ اردو نیوز کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق ایک معاملہ ان سب سے زیادہ قربت کا اور فوری توجہ کا ہے کہ غزہ میں یومیہ 160 بچوں کی پیدائش متوقع ہے لیکن ان کے پاس مناسب خوراک کیا خوراک تک میسر نہیں، لباس اور رہائش کے مسائل ہیں۔ پینے کو پانی نہیں، ڈاکٹر نہیں، ہسپتال نہیں، ادویات نہیں، آرام کی جگہ نہیں، محفوظ جگہ نہیں۔ یہ جنگل نہیں، بلکہ جنگل سے زیادہ خوفناکی میں گھرے ہوئے غزہ خواتین ہیں۔ ان میں سے بہت سی خواتین اسرائیل کی مسلسل بمباری کی وجہ سے اپنے گھروں کی چھت سے محروم ہو کر بے گھر ہو چکی ہیں۔
‘انٹرنیشنل کمیٹی فار ریڈ کریسنٹ ‘ کے غزہ کے لیے ترجمان ہاشم مہنا نے غزہ کی حاملہ خواتین کے ان حالات کے باعث کرب کا ذکر کیا تو بتایا کہ ان کی اپنی حاملہ اہلیہ بھی اسی غزہ کی باسی ہونے کے باعث ہزاروں دوسری خواتین کی طرح غیر معمولی خوف زدگی کے ساتھ رہ بس رہی ہیں۔ ہاشم مہنا نے اپنا اور دوسروں کا مشترکہ دکھ اس طرح بیان کیا ‘ میں نہیں سمجھتا کہ اس طرح کے حالات میں کسی نئے بچے کا جنم ہونا چاہیے۔’
ہاشم مہنا کا یہ کہنا اس لیے ہے کہ ‘غزہ کے آدھے ہسپتال بند ہو چکے ہیں، ان میں سے کئی بمباری کر کے اسرائیل نے تباہ کر دیے اور کئی پانی سے لے کر ادویات اور طبی آلات کی ہر ضرورت سے اس لیے محروم ہو گئے کہ اسرائیل نے غزہ کا مسلسل محاصرہ کر رکھا ہے۔ یہی نہیں 72 میں سے 46 پرائمری ہیلتھ کلینک بھی بند ہو چکے ہیں۔’
لگتا ہے یہ مائیں عام ماوں سے زیادہ اہم، قابل احترام اور قیمتی ہیں کہ جو نئے بچوں کی ولادت سے غزہ کے مرنے والوں کو یقین دلا رہی ہیں کہ ان کی اولادیں فلسطین کی آزادی کے لیے امید اور جہد کا استعارہ بنتی رہیں گی۔