فرانس میں نفرت آمیز سلوک؛ مسلمان دوسرے ممالک منتقل ہونے پر مجبور

(ایجنسیز) امتیازی اور نفرت آمیز سلوک کے باعث اپنے اپنے شعبے کے ماہر اور باصلاحیت مسلمان فرانس چھوڑ کر بیرون ملک جا کر بسنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق فرانس چھوڑ کر اعلیٰ تعلیم یافتہ قابل اور باصلاحیت مسلمان اب لندن، نیویارک، مونٹریال یا دبئی کا رخ کر رہے ہیں۔ آن لائن ایک سروے میں ایک ہزار میں سے 710 فرانسیسی نژاد مسلمانوں نے ملک چھوڑا۔

سروے میں شامل یہ سب لوگ بہتر مستقبل کی تلاش میں فرانس آنے والے مسلم تارکین وطن کی اولادیں ہیں اور 2015 کے بعد سے فرانس میں اسلاموفوبیا کا شکار تھے۔
فرانس میں حکومتی سطح پر عبایا اور حجاب وغیرہ پر پابندی اور خلاف ورزی کرنے والی خواتین پر متشدد حملے بھی ہوئے ہیں۔ پولیس بھی مسلمانوں کو زیادہ تنگ کرتی ہے۔

مسلمانوں کے لیے کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنے میں مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ عدم تحفظ اور عدم مساوات کی وجہ سے فرانس میں مسلمانوں کے لیے عرصہ حیات تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ فرانس کا 1978 کا ایک قانون شہریوں کی نسل، یا مذہب سے متعلق ڈیٹا اکٹھا کرنے پر پابندی لگاتا ہے، جس کی وجہ سے امتیازی سلوک کے بارے میں وسیع اعداد و شمار حاصل کرنا مشکل ہو ہے۔

اسی طرح فرانسیسی نام کے ساتھ ملازمت حاصل کرنا زیادہ آسان ہے اور انھیں تنخواہ، مراعات بھی زیادہ دی جاتی ہے۔ فرانس کے حقوق محتسب نے 2017 میں ایک کیس میں پایا کہ کسی سیاہ فام یا عرب نوجوان کو باقی آبادی کے مقابلے میں 20 گنا زیادہ شناخت کی جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دوسری جانب آبزرویٹری برائے عدم مساوات کا کہنا ہے کہ فرانس میں نسل پرستی میں کمی آرہی ہے، 60 فیصد فرانسیسیوں نے دعویٰ کیا کہ وہ بالکل بھی نسل پرست نہیں ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں