(تصویر بشکریہ العربیہ)
(ایجنسیز) غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں نے گزشتہ برس عیدالاضحی جوش و خروش سے منائی تھی لیکن اس سال اسرائیلی بربریت کی وجہ سے مظلوم فلسطینیوں کی عید آہ و بکا میں ہی گذر رہی ہے۔ ہر سال عیدالاضحیٰ کے موقع پر جانوروں کی قربانی دی جاتی تھی لیکن اس بار کوئی مویشی ملنا تور کی بات ہے، نئے کپڑے تک خرید نہیں سکتے۔
اسرائیلی بربریت کے شکار غزہ میں عید الاضحی کی تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے، مگر مظلوم فلسطینی عید کی خوشیوں سے بہت دور ہیں، لاکھوں فلسطینی خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ قربانی کا گوشت تو بہت دور کی بات پیٹ بھرنے کے لئے سادی روٹی بھی میسر نہیں۔
نادیہ حمودہ، جن کی بیٹی جنگ میں ماری گئی تھی اور مہینوں پہلے وہ شمالی غزہ میں اپنے گھر سے فرار ہوکر اب دیر البلح میں ایک خیمے میں رہتی ہے، نے کہا کہ اس سال جب ہم اذان سنتے ہیں تو ان لوگوں کے لیے ہم رو پڑتے ہیں جن کو ہم نے کھو دیا ہے۔ جو کچھ ہم نے کھویا ہے اسے یاد کرتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم پہلے کیسے رہتے تھے۔
جنگ سے پہلے بھی غزہ غریب اور الگ تھلگ تھا لیکن گزشتوں سالوں میں یہاں کے مکین رنگ برنگی سجاوٹ لٹکا کر، بچوں کے لیے مٹھائیاں اور تحائف خرید کر عید مناتے تھے۔ گوشت خرید کر یا مویشیوں کو ذبح کر کے ان کا گوشت غریبوں میں تقسیم کر کے جشن منا سکتے تھے۔ نادیہ نے کہا وہ واقعی عید تھی۔ ہر کوئی خاص طور پر بچے خوش تھے۔ اب غزہ کی پٹی کا زیادہ تر حصہ کھنڈرات میں پڑا ہوا ہے اور 23 لاکھ فلسطینیوں میں سے زیادہ تر اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔
اشرف سحویل، جو ان لاکھوں افراد میں سے تھے جو جنگ سے پہلے غزہ شہر سے فرار ہو گئے تھے اور اب ایک خیمے میں مقیم ہیں، نے کہا مجھے کچھ معلوم نہیں کہ ہم کب اپنے گھروں کو واپس جا سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ہمارے گھروں کو کیا ہوا ہے۔ کیا ہم ان میں دوبارہ رہنے کے قابل ہو جائیں گے؟ یا ان کی دوبارہ تعمیر کبھی ممکن ہو سکے گی؟
غزہ جنگ سے پہلے کی اگر بات کی جائے تو یہ لوگ پھر بھی رنگ برنگی سجاوٹ لٹکا کر، بچوں کو تحائف دے کر اور گوشت خرید کر یا مویشیوں کو ذبح کر کے ایک دوسرے کے ساتھ عید کی خوشیاں مناتے تھے، مگر اب سب کچھ ایک خواب بن چکا ہے۔