حیدرآباد (دکن فائلز) ملک بھر میں ہندوؤں کے تہواروں کے دوران مساجد کے سامنے جلوس کو روک کر شرپسندی کرنا عام بات ہوگئی ہے۔ جلوس کو مساجد کے سامنے روکنا اور ڈی جے پر اشتعال انگیز نعرے اور گانے بجانے کے کئی واقعات پیش آئے ہیں جس سے حالات کے بگڑنے کا خطرہ رہتا ہے۔ اس طرح کی حرکتوں کی ہندوتوا شرپسندوں کو چھوڑ کر کوئی بھی تائید نہیں کرتا، تاہم اب تازہ طور پر کرناٹک ہائی کورٹ کا ایک متنازعہ فیصلہ سے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنے ایک حیرانکن فیصلہ میں کہا ہے کہ ’مسجد کے ا ندر جے شری رام جیسا مذہبی نعرہ لگانے سے مذہبی جذبات مجروح نہیں ہوتے‘۔ کرناٹک ہائیکورٹ نے مساجد کے اندر ہندو نعرے لگانے سے مذہبی جذبات مجروح ہونے کے خیال کو ہی مسترد کر دیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مسجد کے اندر جئے شری رام کا نعرہ لگاکر مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے ایک معاملہ میں دو ملزمان کے خلاف الزامات عائد کئے گئے تھے تاہم عدالت نے اس طرح کے الزامات کو ہی مسترد کردیا۔ جسٹس ایم ناگاپرسنا نے فیصلہ دیا کہ مسجد کے ا ندر ہندو نعرہ لگانے سے امن و امان میں خلل نہیں پڑا اور نہ ہی کسی مذہبی گروہ کو ٹھیس پہنچی، یہ بتاتے ہوئے کہ اس واقعہ سے کسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات مجروح نہیں ہوئے۔
واضح رہے کہ گذشتہ سال ستمبر میں دو ہندوتوا شدت پسند کیرتن کمار اور سچن کمار نے رات کے وقت مسجد میں گھس کر ’جے شری رام‘ کے نعرے لگائے تھے جس کے بعد پولیس نے تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی متعدد دفعات بشمول دفعہ 295A، 447، اور 506 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ آئی پی سی کی دفعہ 295A مشتعل کرنے کے لیے مذہبی عقائد کی توہین کے مقصد سے جان بوجھ کر کیے جانے والے اقدامات کو مجرم قرار دیتی ہے۔ تاہم عدالت کو کوئی ثبوت نہیں ملا کہ نعرے دشمنی کو بھڑکانے یا ہم آہنگی میں خلل ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ “یہ دیکھتے ہوئے کہ علاقے میں ہندو اور مسلمان پرامن طور پر ایک ساتھ رہتے ہیں، اس واقعہ کو کسی بھی مذہبی گروہ کی توہین سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ مزید یہ کہ ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگانا دفعہ 295A کے تحت کسی جرم کی شرائط کو پورا نہیں کرتا تھا۔