حیدرآباد (دکن فائلز ویب ڈیسک) غزہ کے لوگوں نے واپسی کا سفر شروع کرکے عزمِ بقا کا اعلان کردیا ہے! غزہ کی شاہراہوں پر ہزاروں فلسطینیوں کا جمِ غفیر رواں دواں ہے۔ یہ صرف واپسی نہیں، یہ ایک واضح اعلان ہے کہ قابض اسرائیل کی نسل کشی فلسطینیوں کے عزم کے سامنے شکست کھا گئی ہے۔
جنوبی غزہ سے شمال کی جانب ہزاروں فلسطینی اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ مرد، عورتیں اور بچے گرد آلود قدموں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں امید کی چمک نمایاں ہے۔ یہ منظر دکھ اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے بھرا ہے۔ نسل کشی کی جنگ کے رکنے کا اعلان ہوتے ہی، بے گھر خیمہ بستیوں سے خوشی کی آوازیں بلند ہوئیں۔ نوجوانوں نے پرچم اٹھا لیے اور بچے خوشی سے دوڑتے نظر آئے۔
ام محمود مہنا، دیر البلح سے اپنے آبائی محلے الزیتون واپس جا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “دنیا میں کوئی چیز ہمارے گھر کی جگہ نہیں لے سکتی۔ چاہے وہ ملبے میں بدل گیا ہو، ہم واپس جائیں گے اور پتھروں پر سوئیں گے۔” خان یونس سے غزہ تک واپسی کے قافلے ساحلی سڑک پر رواں دواں ہیں۔ لوگ میلوں پیدل چل رہے ہیں، اپنا بچا کھچا سامان کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ یہ تھکن سے بے پرواہ، اپنی زمین کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
باون سالہ ابو رامی یاغی کہتے ہیں، “تھکن کی کوئی پرواہ نہیں، اصل بات یہ ہے کہ ہم واپس جا رہے ہیں۔ یہ مٹی ہماری ہے، کسی اور کی نہیں۔” ان کے قدموں نے راستے کو یادوں سے ناپا ہے۔ شاطی مہاجر کیمپ میں 33 سالہ لیان مقداد اپنے اجڑے گھر کے ملبے پر کھڑی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “ہم سے کہا گیا کہ مصر چلے جاؤ، جنوب جاؤ، مگر ہم صرف غزہ چاہتے ہیں۔”
ان کے آنسوؤں میں ڈوبی آواز ایک اجتماعی مزاحمت کی علامت ہے۔ ہر وہ فلسطینی جو اپنے اجڑے گھر واپس آیا ہے، وہ استقامت کے ایک نئے باب کا عنوان بن گیا ہے۔ یہ جبری بے دخلی کا دوٹوک انکار ہے۔ غزہ شہر کے جنوب مغرب میں تل الہوا کے علاقے میں تباہ شدہ عمارتیں درد کی داستان سنا رہی ہیں۔ مگر انہی ملبوں کے درمیان حیرت انگیز مناظر جنم لے رہے ہیں۔ بچے ٹوٹی دیواروں پر تصویریں بنا رہے ہیں۔
عورتیں اجڑے گھروں کے سامنے صفائی کر رہی ہیں اور مرد خیمے لگا کر رہائش کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو دکھوں کے بوجھ کے ساتھ مگر بقا کے عزم سے سرشار لوٹے ہیں۔ یہ مناظر صرف انسانی نہیں بلکہ سیاسی اور اخلاقی پیغام بھی رکھتے ہیں۔ یہ قابض اسرائیل کے اس منصوبے کا عملی خاتمہ ہیں جو فلسطینیوں کو ان کی زمین سے مٹانا چاہتا تھا۔
خان یونس کے مواصی علاقے سے شیخ رضوان محلہ لوٹنے والے ایک نوجوان نے کہا، “جو بمباری سے بچ گیا، وہ اب پھر سے جینے لوٹا ہے۔ ہم دنیا کو بتا رہے ہیں، ہم باقی ہیں اور باقی رہیں گے۔”