غزہ کی زندہ لاشیں: ’ہماری ہڈیاں توڑنا اسرائیلی جلادوں کے لیے تفریح تھی،‘ صہیونی زندانوں سے لوٹنے والے اسیران کے روح فرسا انکشافات

حیدرآباد (دکن فائلز) غزہ کے فلسطینی اسیران کی رہائی کے مناظر دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’کوئی شخص قبر سے زندہ لوٹ آیا ہے! ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے جسم، زرد چہرے اور خوف زدہ آنکھیں، یہ سب صہیونی زندانوں کی ہولناکی بیان کرتے ہیں۔

رہائی پانے والے ان قیدیوں کی حالت ایسی تھی جیسے وقت نے ان پر بیس تیس برس ایک ساتھ گرا دیے ہوں۔ ان کے چہرے بتاتے تھے کہ صہیونی جیلوں میں گزرے ایام نے ان کی روحوں کو جلا کر راکھ کر دیا ہے۔ رہائی کے بعد جب وہ بولنے لگے تو الفاظ ان کا ساتھ نہ دے سکے۔

ان میں سے کئی ایسے تھے جو بیماریوں اور زخموں کے بوجھ تلے دبے ہوئے نکلے۔ قابض اسرائیل نے انہیں دانستہ طور پر علاج سے محروم رکھا۔ وہ اپنے پیچھے رہ جانے والے رفقا کے لیے تڑپ رہے ہیں، ان کی آزادی کے لیے پکار رہے ہیں۔

رہا ہونے والے اسیر ناجی الجعفراوی جب زندان کے اندھیروں سے باہر آئے تو سب چہروں میں اپنے بھائی صالح کا چہرہ تلاش کیا۔ مگر صالح اب زندہ نہ تھے، وہ چند گھنٹے پہلے ہی غزہ میں شہید ہو چکے تھے۔ ناجی لرزتی آواز میں کہتے ہیں کہ قید و بند کی وہ کیفیت الفاظ سے بیان نہیں ہو سکتی۔

وہ کہتے ہیں کہ “جیل کا حال الفاظ میں سمیٹا جا سکتا ہے، نہ عبارتوں میں۔ وہاں کے عذاب کی گہرائی کو کوئی بلیغ زبان بیان نہیں کر سکتی۔ ہم تو گویا زمین کے پیٹ میں دفن تھے، زندہ مگر مردہ، اندھیروں کے اس گڑھے میں کہ جہاں وقت رُک گیا تھا”۔

ناجی بتاتے ہیں کہ انہیں سو دن سے زیادہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر، ہاتھ پیچھے باندھ کر بٹھائے رکھا گیا۔ بیت الخلا جانے کی اجازت ہر دو دن میں ایک بار ملتی، اگر قسمت سے موقع ملتا۔ انہیں جوتوں تلے روندنا ان کا معمول تھا۔

وہ کہتے ہیں “ہم موت کے اندھیروں سے نکلے ہیں، قبروں سے نکلے ہیں، برزخ کی زندگی سے واپس آئے ہیں۔ ہمیں یقین تھا کہ اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا”۔ یہ الفاظ ان کی ناقابلِ یقین ہمت کی گواہی ہیں۔

“میں ٹھیک نہیں ہوں، بالکل نہیں۔ ہمیں دو برس سے بھوکا رکھا گیا۔” یہ الفاظ صحافی اسیر شادی ابو سیدو کے ہیں جو رہائی کے بعد بھی خوف و درد سے کانپ رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ رہائی سے چند لمحے پہلے تک بھی ان پر تشدد جاری رہا۔

وہ چیخ کر کہتے ہیں کہ “پورا جیل عذاب ہے۔ ہڈی توڑنا ان کا معمول ہے۔ میری کلائیاں توڑ دیں، پسلیاں چکناچور کر دیں۔ ہمیں توڑنے کے لیے وہ ‘ہڈی توڑ پالیسی’ استعمال کرتے تھے”۔

ابو سیدو جو “فلسطین الیوم” کے فوٹوگرافر ہیں، بتاتے ہیں کہ قابض اسرائیل نے انہیں بغیر علاج کے چھوڑ دیا۔ “میری آنکھ سے خون بہتا رہا کیونکہ انہوں نے جان بوجھ کر سر اور آنکھوں پر مارا”۔ تفتیش کاروں نے دانستہ اس کی آنکھوں کو نشانہ بنایا۔

ایک تفتیش کار نے کہا کہ “میں تمہاری آنکھ ایسے نکالوں گا جیسے تمہاری کیمرہ کی آنکھ سے غزہ کے مظالم نکلوا لیتا تھا”۔ جب وکیل نے انسانی حقوق کی تنظیموں کو اطلاع دینے کی بات کی تو ابو سیدو نے کہا “حیوانوں کے حقوق کی تنظیموں کو بتاؤ، شاید ان سے کچھ رحم مل جائے۔”

یہ دل دہلا دینے والی گواہیاں محض چند مثالیں ہیں ان مظالم کی جو قابض اسرائیل کی جیلوں میں فلسطینیوں پر ڈھائے جا رہے ہیں۔ یہ وہی نسل کشی ہے جو غزہ کے شہریوں پر کی جا رہی ہے، فرق صرف دیواروں کا ہے۔

کلب برائے اسیران کے مطابق سات اکتوبر کے بعد سے اب تک صہیونی جیلوں میں ستتر فلسطینی قیدی شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں سے بیشتر اذیت، بھوک اور علاج کی کمی کے سبب دم توڑ گئے۔ یہ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

الشفاء ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ابو سلمیہ کے مطابق رہائی پانے والے اسیران انتہائی کمزور، نفسیاتی طور پر ٹوٹے ہوئے اور جسمانی طور پر مفلوج حالت میں لائے گئے۔ کئی ایسے ہیں جن کے ہاتھ یا پاؤں صہیونی قید میں طبی لاپرواہی سے ضائع ہو گئے۔

آج ہم ان زندہ لاشوں کے بارے میں لکھ رہے ہیں جو قبروں سے لوٹ آئے ہیں۔ مگر پیچھے وہ رہ گئے جو اب بھی صہیونی عقوبت خانوں میں زندگی اور موت کے بیچ لٹک رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ بھی لوٹ پائیں گے؟

یہ صرف کہانیاں نہیں، یہ انسانیت پر ڈھائے جانے والے مظالم کی سچی گواہیاں ہیں۔ ان بے گناہ قیدیوں کی آواز بنیں!

اپنا تبصرہ بھیجیں