سی اے اے، بی جے پی کا سیاسی ہتھکنڈہ: متنازعہ قانون کے خلاف مسلم دانشوران کا مشترکہ بیان

(ایجنسیز) ملک کی متعدد مسلم تنظیموں اور سرکردہ مسلم دانشوران نے سی اے اے کے نفاذ پر تنقید کرتے ہوئے اسے آئین مخالف اور انصاف کے اصولوں کو مجروح کرنے والا قانون قرار دیا۔ ایک مشترکہ بیان میں شہریت ترمیمی قانون کی مذمت کی گئی اور عین لوک سبھا انتخابات سے قبل اس کے نفاذ کو لیکر مودی حکومت پر شدید تنقید کی گئی۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ عام انتخابات سے عین قبل اس قانون کے نفاذ کا اعلان کرنا، ظاہر کرتا ہے کہ یہ سب انتخابی فائدے حاصل کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔ یہ ایک ناپسندیدہ عمل اور قابل مذمت فیصلہ ہے۔ کیونکہ اس میں ایسی شقیں متعارف کرائی گئی ہیں جو ہندوستانی آئین میں درج مساوات اور سیکولرزم کے اصولوں کے خلاف ہیں۔ ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 14 تمام شہریوں میں مساوات کی ضمانت دیتا ہے اور مذہب کی بنیاد پر افراد کے درمیان امتیازی سلوک کی ممانعت کرتا ہے۔

شہریت ایکٹ 1955 کے سیکشن 2 میں (b) شق کا اندراج کرکے تعصب پر مبنی رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ اس میں افغانستان، بنگلہ دیش یا پاکستان سے آنے والے ہندو، سکھ، بودھ، جین ، پارسی یا عیسائی برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان میں سے جو دسمبر 2014 سے پہلے ہندوستان میں داخل ہوچکے ہیں ، ان کے ساتھ تارکین وطن جیسا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر اس ایکٹ میں شامل کرنے سے گریز کیا گیا ہے جس سے شہریوں میں مساوی حقوق کے اصول کو شدید دھچکا لگا ہے۔ یہ امتیازی قانون سازی ، ہمارے ملک کے سماجی تانے بانے کو کمزور اور تنوع کے بنیادی اصولوں کو ختم کر رہی ہے۔

پارلیمنٹ سے شہریت ترمیمی بل کی منظوری سے ہونے والے نقصانات کو محسوس کرتے ہوئے ملک کے مسلمانوں اور معاشرے کے دیگر طبقات نے ملک گیر احتجاجی مظاہرے کئے تھے ۔ اب جبکہ عام انتخابات قریب ہیں تو اس قانون کے نفاذ کا اعلان کیا گیا ہے، یہ قابل اعتراض ہے ۔ یہ تنگ نظر سیاسی مفادات حاصل کرنے والا رویہ ہے جو معاشرے کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرکےسیاسی مقاصد حاصل کرنے کو ظاہر کرتا ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ شہریت ، مساوات اور برابری کے اصولوں کی بنیاد پر دی جانی چاہئے۔ اس میں ذات پات، مذہب و ملت یا نسل و برادری کی کوئی شرط نہیں ہونی چاہئے۔ عدم مساوات اور ذات پات کا تعصب ہمارے قومی سیکولرزم کے تانے بانے کو بکھیر دے گا۔ انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ہم حکومت سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ شہری ترمیمی ایکٹ 2019 کو منسوخ کرے اور ہمارے آئین میں شمولیت اور مساوات کی اقدار کو برقرار رکھے-

مشترکہ بیان مولانا محمود اسعد مدنی صدرجمعیت علماء ہند،، سید سعادت اللہ حسینی امیر جماعت اسلامی ہند، مولانا اصغر امام مہدی سلفی امیر جمعیت اہل حدیث ہند، مولانا فیصل ولی رحمانی امیر امارت شرعیہ، مولانا انیس الرحمن قاسمی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل، مولانا یاسین عثمانی بدایونی نائب صدرآل انڈیا ملی کونسل، ملک معتصم خان نائب امیرجماعت اسلامی ہند، پروفیسر سلیم انجینئرنائب امیرجماعت اسلامی ہند، مولانا حکیم الدین قاسمی جنرل سکریٹری جمعیت علماء ہند، ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس، مولانا نیاز فاروقی، شیخ مجتبیٰ فاروقی اورڈاکٹر ظفرالاسلام خاں سابق چیئرمین دہلی مائنارٹیزکمیشن کی جانب سے جاری کیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں