کرناٹک کے چتردرگا ضلع میں مسجد کے متولی سمیع اللہ پر چاقو سے جان لیوا حملہ کیا گیا جبکہ حملہ میں سمیع اللہ شدید زخمی ہوگئے۔ پولیس نے حملہ آور نوتن کو گرفتار کرلیا۔
اطلاعات کے مطابق ہریور میں مسجد میں مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد گھر لوٹ رہے سمیع اللہ پر ہندو شدت پسند نوتن نے چاقو سے حملہ کردیا۔ شدید زخمی سمیع اللہ کا علاج مقامی ہسپتال میں کیا جارہا ہے۔
پولیس کے مطابق 37 سالہ سمیع اللہ ایک دکان پر کھڑے تھے، اس دوران 22 سالہ نوتن انہیں گھورنے لگا، جس پر سمیع اللہ نے اعتراض کیا، جس کے بعد کچھ کہاسنی ہوگئی۔ بعدازاں مسجد سے لوٹ رہے سمیع اللہ پر نوتن نے حملہ کردیا۔ ملزم کو گرفتار کرکے عدالتی تحویل میں بھیج دیا گیا اور اس سلسلہ میں تحقیقات کی جارہی ہے۔ پولیس نے اس واقعہ کو ذاتی دشمنی قرار دیا ہے اور مذہبی تعصب کے اینگل کو خارج کردیا۔
ٹو سرکل ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ حملہ آور دائیں بازو شدت پسند ہندوتوا ذہنیت کا حامل ہے جبکہ ملزم اور متاثرہ کے درمیان کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ ملزم نوتن گوڑا کے انسٹاگرام پروفائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شدت پسند ہندوتوا نظریےہ پر یقین رکھتا تھا، اس کے پروفائل پر ’جئے شری رام، چترپتی شیواجی کے پرستار، ہندوتوا کے لیے لڑیں‘ لکھا ہوا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سمیع اللہ کے بھائی قاسم نے بتایا کہ ان کے بھائی پر پیچھے سے حملہ کیا گیا اور چاقو سے کئی وار کئے گئے۔ انہوں نے واقعہ پر فرقہ وارانہ زاویہ کے شبہ کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ علاقہ میں پرامن ماحول ہے تاہم گاؤں میں نفرت پر مبنی جرائم کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ علاقے کے کچھ نوجوان بجرنگ دل اور آر ایس ایس جیسی تنظیموں میں شامل ہوئے ہیں جس کے بعد مقامی ہندو نوجوانوں میں شدت پسندی کا جذبہ ابھر رہا ہے جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کےلیے خطرہ ہے۔
مقامی لوگوں نے حکومت اور پولیس سے واقعہ کی اعلیٰ سطحی جانچ کرتے ہوئے خاطی کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ ’اگر کسی واقعہ میں کوئی مسلمان قصوروار قرار دیا جاتا ہے تو اسے فوری طور پر شدت پسند یا دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے اور گودی میڈیا کی جانب سے خوب اچھالا جاتا ہے تاہم اگر خاطی ہندو ہو تو پولیس کی جانب سے واقعہ کو معمولی ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے وہیں فرقہ پرست میڈیا کی جانب سے اس معاملہ میں خاموشی اختیار کی جاتی ہے تاکہ سچ کو چھپایا جاسکے‘۔