عدالت کی اجازت کے بغیر بلڈوزر کاروائی پر لگی روک میں توسیع، سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا، جمیعت علما ہند کے وکیل نے سماعت کے دوران مدلل بحث کی

حیدرآباد (دکن فائلز) سپریم کورٹ نے منگل کو سپریم کورٹ کی اجازت کے بغیر ملک بھر میں انہداموں کو منجمد کرنے کے سابقہ حکم میں توسیع کردی اور اس معاملہ میں اپنے فیصلے محفوظ کرلیا۔ عدالت نے بلڈوزر ایکشن پر لگائی گئی عارضی روک کو جاری رکھنے کا حکم دیا۔

اطلاعات کے مطابق سماعت کے دوران جمیعت علما ہند کے وکیل نے زبردست بحث کرتے ہوئے کہاکہ ’حال ہی میں گنیش پنڈال پر پتھراؤ کے معاملہ میں ملزم بنائے گئے افراد کے گھروں پر فوری طور پر بلڈوزر کاروائی کی گئی۔ ایک اور واقعہ میں یوپی کے جاوید محمد کا گھر ان کی بیوی کے نام تھا لیکن جاوید پر ہجومی تشدد کے معاملہ میں ملزم ہونے کی پاداش میں دو منزلہ مکان منہدم کردیا گیا‘۔ وکیل نے کہا کہ ’اس طرح کے واقعات اتنے عام ہوچکے ہیں کہ اس طرح کی ایک طرفہ کاروائیوں کا نام لیکر سیاست داں ووٹ مانگ رہے ہیں‘۔

درخواست گزار کے وکیل نے کئی ایسے واقعات کا حوالہ دیا جہاں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف فوری کارروائیاں کی گئی ہیں، یہاں تک کہ سپریم کورٹ کی روک تھام کے باوجود بھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ عمل غیر قانونی اور منصفانہ نہیں ہے اور اس طرح کے اقدامات کو فوری طور پر روکا جانا چاہیے۔

دلائل سننے کے بعد جسٹس وشواناتھن نے کہا کہ ہمارا ماننا ہے کہ انہدام کی کارروائی صرف اس وقت کی جانی چاہئے جب یہ آخری آپشن ہو۔ عدالت نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کسی بھی غیر قانونی ڈھانچے کو منہدم کرنے کا عمل تب کیا جانا چاہیے جب تمام دوسرے متبادل اقدامات ختم ہو چکے ہوں۔

سپریم کورٹ نے عوامی مقامات سے مذہبی مقامات کو ہٹانے سے متعلق سخت ریمارکس کئے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ’ہم ایک سیکولر ملک ہیں اور ہماری ہدایات سب کے لیے ہوں گی چاہے وہ کسی بھی مذہب یا برادری سے ہو۔ اگر سڑک کے بیچ کوئی بھی مذہبی ڈھانچہ ہو اسے ہٹادیا جانا چاہئے‘۔ جسٹس گوائی نے کہا کہ ’مندر ہو، درگاہ ہو یا کوئی اور مذہبی مقام ہو اگر عوامی پریشانی کا سبب بنتا ہے تو اسے ہٹادیا جائے۔ عوام کی حفاظت سب سے اہم ہے۔

وہیں جسٹس کے وی وشواناتھن نے دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر خلاف ورزی کرنے والے دو مذہب سے تعلق رکھنے والے ڈھانچے ہیں اور صرف ایک کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو اس کاروائی پر سوال پیدا ہوتا ہے۔ جسٹس گوائی نے کہاکہ ‘ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بلڈوزر کاروائی صرف اس لیے نہیں کی جا سکتی کہ کوئی شخص ملزم یا مجرم ہو۔ اس کے علاوہ نوٹس اور انہدامی کاروائی میں ایک محدود وقت ہونا چاہئے۔

جسٹس وشواناتھن نے کہا کہ غیرقانونی عمارتوں کے خلاف کی گئی کاروائی کے بعد سڑک پر خواتین، بوڑھوں اور بچوں کو دیکھنا خوشگوار نہیں ہوسکتا۔ اگر ان کے پاس وقت ہوتا تو وہ کوئی متبادل انتظام کر لیتے۔ سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ فی الحال ملک بھر میں انہداموں پر عبوری پابندی برقرار رہے گی۔ عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا اور فیصلہ آنے تک بلڈوزر ایکشن پر روک جاری رہے گی۔

سپریم کورٹ نے بلڈوزر ایکشن کیس کی سماعت کے دوران عوامی تحفظ کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی مذہبی ڈھانچے کو جو عوام کی زندگی میں رکاوٹ بنتا ہے، ہٹایا جانا چاہیے۔ جسٹس گوائی نے کہا کہ ’ہم ایک سیکولر نظام میں ہیں، لہذا غیر قانونی تعمیرات پر کارروائی ہونی چاہیے، چاہے وہ کسی بھی مذہب کے پیروکار کی ہوں۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں