حیدرآباد (دکن فائلز) آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سیکرٹری مولانا فضل الرحمٰن مجددی کی قیادت میں ایک نمائندہ وفد نے جمعرات کو مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور کرن رجیجو سے ملاقات کی۔ وفد نے حکومت سے ’اُمّید پورٹل‘ (UMMEED Portal) پر وقف املاک کی رجسٹریشن کی آخری تاریخ میں فوری توسیع کا مطالبہ کیا۔
اس اہم ملاقات میں کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے صدر و رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی، آغا سید روح اللہ مہدی (ایم پی)، چندرشیکھر آزاد راون (ایم پی)، محمد جاوید (ایم پی)، اور جماعتِ اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی و دیگر بھی موجود تھے۔
حکومتِ ہند نے 2023 میں ملک بھر کی وقف املاک کا ڈیجیٹل ریکارڈ تیار کرنے کے لیے ’’اُمّید پورٹل‘‘ متعارف کرایا تھا۔
اس پورٹل پر وقف جائیدادوں کی رجسٹریشن، ملکیت کی ڈیجیٹل تصدیق، منجمد یا تنازع شدہ املاک کا مسلسل ریکارڈ، ریاستی وقف بورڈز کی مربوط نگرانی جیسے اہداف رکھے گئے۔
لیکن گزشتہ دو برس میں متعدد ریاستوں جن میں تلنگانہ، آندھرا پردیش، اتر پردیش اور کرناٹک شامل ہیں نے اس پر اعتراض کیا کہ وقف املاک کے صحيح ریکارڈ کے لیے زیادہ وقت درکار ہے۔ کئی پرانے ریکارڈ کاغذی صورت میں موجود ہیں، ہزاروں جائیدادیں عدالتی تنازعات میں ہیں، کم وقت میں رجسٹریشن ممکن نہیں۔ اگر وقت میں توسیع نہ ہوئی تو لاکھوں ایکڑ وقف اراضی قانونی اور انتظامی پیچیدگیوں میں پھنس سکتی ہے۔
مولانا فضل الرحمن مجددی نے کہاکہ “وقف جائیدادیں پوری ملت کا امانت ہیں۔ اگر یو ایم ای ای ڈی پورٹل کی آخری تاریخ میں مناسب توسیع نہ کی گئی تو ہزاروں جائیدادیں ڈی ریگولیٹ ہونے کا خطرہ ہے۔”
اسد الدین اویسی نے بھی مسئلے کی سنگینی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ “وقف املاک کی حفاظت آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے۔ پورٹل کی مدت بڑھانے سے پورا عمل شفاف اور مؤثر ہوگا۔”
کرن رجیجو کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے، انہوں نے کہا کہ “مسئلہ سنجیدہ ہے، حکومت غور کرے گی”۔ وفد کی تفصیلی بریفنگ کے بعد وزیر نے یقین دلایا کہ وقف املاک کے تحفظ کی اہمیت سے حکومت آگاہ ہے، وزارت تکنیکی مسائل، ریکارڈ اپڈیٹ، اور ریاستی بورڈز کی درخواستوں کا جائزہ لے گی، توسیع کے مطالبہ پر متعلقہ محکموں سے مشاورت کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق حکومت اس مسئلے پر جلد فیصلہ کر سکتی ہے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر اہم مسلم اور سیاسی شخصیات کی یہ مشترکہ کوشش وقف املاک کے تحفظ کے سلسلے میں ایک اہم پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔ اب نظر اس بات پر ہے کہ حکومت ڈیڈ لائن میں توسیع کے مطالبے پر کیا فیصلہ کرتی ہے۔


