” بلقیس بانو کی عصمت دری اور اس کے خاندان کے سات افراد کے قتل میں ملوث قصورواروں اور عمر قید کی سزا پانے والوں کو رہائی دینے کے فیصلے میں گجرات حکومت کے کردار پر ہمیں بہت افسوس ہے۔ہم اس فیصلے کی مذمت کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ اس معاملے میں مداخلت کرے گی تاکہ حکومتی پالیسی کی آڑ میں کی گئی اس سنگین نا انصافی کو ختم کیا جاسکے“۔ یہ باتیں نائب امیر جماعت اسلامی ہند پروفیسر سلیم انجینئر نے میڈیا کو جاری اپنے ایک بیان میں کہی۔
انہوں نے گجرات سرکار کے اس رویے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ”اگر ریاستی حکومتوں کو گھناؤنے جرائم میں ملوث ہونے کے باجود ’معافی پالیسی‘ کے ذریعے اپنی پسند کے مجرموں کو رہا کرنے کی اجازت دے دی جائے تو اس سے ہمارا عدلیہ نظام ایک مذاق بن جائے گا اور عام شہریوں کی اس نظام سے وابستہ امیدیں ٹوٹ جائیں گی۔ ’انصاف سب کے لئے‘ ہمارے آئین کے سب سے زیادہ بھروسہ کئے جانے والے اصولوں میں سے ایک ہے۔ اگر ’معافی پالیسی‘ کا یہی سلسلہ جاری رہا تو ہمارے ملک کی جمہوریت کمزور ہوجائے گی۔ اس سے جرائم پیشہ اور ان کے ماسٹر مائنڈز کو حوصلہ ملے گا کیونکہ انہیں انتہائی سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے کے باوجود جلد یا دیر سے سسٹم کے ذریعے ضمانت حاصل کرنے کا یقین ہوگا۔ ہم ’ناری شکتی‘ کو فروغ دینے کی بات کرتے ہیں اور خواتین کی عزت و وقار کے محافظ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اس طرح کی پالیسی سے ہمارا دوہرا رویہ اجاگر ہوجاتا ہے“۔
پروفیسر سلیم انجینئر نے مزید کہا کہ ” بلقیس بانو عصمت دری کیس میں رہا ہونے والوں کو سی بی آئی کورٹ نے قصوروارٹھہرایا تھا اور اس فیصلے کو بمبئی ہائی کورٹ نے برقرار رکھا تھا۔ ان گیارہ مجرموں میں سے صرف ایک نے سزا کی معافی کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے گجرات کی ریاستی حکومت کو قبل از وقت رہائی کے لئے کی گئی اس اپیل پر غور کرنے کی ہدایت کی تھی۔لیکن ریاستی حکومت نے ایک پینل تشکیل دی اور تمام گیارہ مجرموں کی معافی کے حق میں فیصلہ کردیا۔ اگر ہم اس پورے واقعہ پر نظر ڈالیں تو بلاشبہ یہ فیصلہ ایک خطرناک نظیر قائم کرتا ہے جو ہمارے انصاف فراہمی کے نظام کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گا۔ اگر ہم جمہوریت اور قانون کی بالادستی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو اس فیصلے کو تبدیل کرنا ہوگا“۔