یوم آزادی کے موقع پر سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی ڈی پی فوٹو پر قومی پرچم رکھنے سے متعلق سیاسی کشمکش کے درمیان، آر ایس ایس نے گذشتہ روز اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر ترنگا پرچم کی تصویر لگادی۔
بھگوا تنظیم نے جمعہ کو ہندوستان کے 75 ویں یوم آزادی سے قبل پی ایم مودی کی کال پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اپنی سوشل میڈیا پروفائل فوٹوز کو قومی پرچم سے تبدیل کردیا جس پر کانگریس کے سینئر رہنما پون کھیڑا نے طنز کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا۔
قبل ازیں کانگریس نے آر ایس ایس پر حملہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس بھگوا تنظیم نے 52 سالوں تک ہندوستان کے قومی پرچم کی مخالفت کی تھی اس نے مودی کی کال پر عمل نہیں کیا جس کے بعد آر ایس ایس نے گذشتہ روز ڈی پی پر تصویر کو ترنگا سے تبدیل کردیا، جس کو لیکر سوشل میڈیا پر ملاجلاردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔ بعض لوگوں نے آر ایس ایس پر کڑی تنقید کی ہے۔
کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے مودی حکومت کی ’ہر گھر ترنگا‘ مہم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جس تنظیم نے 52 سالوں تک اپنے دفتر پر ترنگا نہیں لہرایا انہوں نے آج ’ہر گھر ترنگا‘ مہم چلائی ہے، یہ لوگ بتائیں کہ پرچم بنانے والوں کا روزگار کیوں ختم کیا جا رہا؟ راہل نے کرناٹک میں ترنگا بنانے والے ورکرز سے ملاقات کے بعد فیس بک پر لکھا ’’آج کرناٹک کے ہبلی میں واقع کرناٹک کھادی گرام ادیوگ پہنچ کر ہمارا ترنگ بننے والے تمام کام ورکرز سے ملاقات کر کے بہت خوشی ہوئی۔‘‘ انہوں نے کہا ’’ترنگے کو ہمیشہ بلند رکھنے کے لئے ملک کے لاکھوں باشندگان نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا لیکن ایک تنظیم نے ترنگے کو اپنانے سے ہمیشہ منع کیا، 52 سالوں تک ناگپور میں اپنے صدر دفتر پر ترنگا نہیں لہرایا، لگاتار ترنگے کی توہین کی۔ آج اسی تنظیم سے نکلے ہوئے لوگ ترنگے کی تاریخ بیان کر رہے ہیں، ’ہر گھر ترنگا‘ مہم چلا رہے ہیں۔‘‘
وہیں کچھ روز قبل کرناٹک کے سابق وزیراعلیٰ سدارامیا نے آر ایس ایس پر شدید تنقید کرتے ہوئے مرکزی حکومت کی ہر گھر ترنگا مہم کو ڈرامہ قرار دیا تھا اور وزیراعظم کو عظیم ڈرامہ نگار بتایا تھا۔ کانگریس رہنما نے ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے تعاون پر سوال اٹھایا اور الزام لگایا تھا کہ ان لوگوں نے قومی پرچم قومی ترانے اور آئین کی مخالفت کی تھی۔
خیال رہے کہ مودی حکومت نے آزادی کے 75ویں سال میں داخل ہونے پر اُتسو یعنی تہوار منانے کے لیے ’ہر گھر ترنگا‘ مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔ اس مہم کو ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ کہا جا رہا ہے، تاہم اسی اُتسو کے درمیان کرناٹک کھادی گرام ادیوگ کی مختلف اکائیوں سے منسلک تقریباً 45000 ورکرز پر بے روزگاری کا بحران بھی منڈلا رہا ہے۔