ایودھیا کے مسلمان خوف و تشویش میں کیوں ہیں؟

(ایجنسیز) رام مندر کے افتتاح سے قبل ایودھیا میں مقیم مسلم سماج میں خوف و تشویش کا ماحول ہے۔ روزنامہ خبریں کی رپورٹ کے مطابق جیسے جیسے 22 جنوری قریب آ رہی ہے، اتر پردیش کے ایودھیا میں مندر کے آس پاس رہنے والے مسلم کمیونٹی کے لوگوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ 22 جنوری کو ہونے والے رام مندر پران پرتیشتھا پروگرام میں نہ صرف وزیراعظم نریندر مودی شرکت کریں گے بلکہ اس میں ملک و بیرون ملک کی سینکڑوں معروف شخصیات بھی شریک ہوں گے۔

ایودھیا رام جنم بھومی پولیس اسٹیشن کے اندر آنے والے دورہی کوان علاقے کے وحید قریشی نے دی ہندو کو بتایا، “ہمیں نہیں معلوم کہ باہر کے لوگ کیا سوچ رہے ہیں یا منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ انتظامیہ نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ کوئی غیر متوقع واقعہ نہیں ہوگا۔ ”لیکن لاکھوں لوگوں میں سے کچھ عناصر کے غلط ارادے ہو سکتے ہیں۔” انہوں نے اخبار کو بتایا ’’ہمارا خاندان 1990 اور 1992 میں ایودھیا میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کا گواہ رہا ہے‘‘۔ اتر پردیش حکومت کی طرف سے امن و سلامتی کی بار بار یقین دہانیوں کے باوجود ایودھیا میں کئی مسلم خاندان ایسے ہیں جو 22 جنوری کو ہونے والے پروگرام کو لے کر پریشان ہیں

ایودھیا کی ایک مسلم تنظیم نے مقامی انتظامیہ کو ایودھیا کے مسلم اکثریتی علاقوں اور 1992 کے فرقہ وارانہ فسادات سے متاثرہ علاقوں میں حفاظتی انتظامات اور نگرانی بڑھانے کے لیے درخواست دی ہے۔ اخبار نے لکھتا ہے کہ 16 جنوری کو انجمن تحفظ مساجد و مقابر نامی تنظیم نے ایودھیا ڈویژن کے انسپکٹر جنرل آف پولیس کو ایک خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ ’’ایودھیا شہر میں ہندو اور مسلمان پرامن طریقے سے رہتے ہیں مسلمانو ں کے غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ لیکن ماضی میں یہاں باہر سے آنے والے لوگوں کی بھیڑ کی وجہ سے یہاں کی کمیونٹی کو جان، مال اور مذہبی مقامات کا نقصان ہوا ہے۔”

“22 جنوری کو پران پرتیشٹھاا کے دن اور اس کے بعد باہر کے لوگوں کی ایک بڑی بھیڑ یہاں جمع ہونے کی امید ہے، اس لیے ایودھیا میں رہنے والے مسلمان خوف میں مبتلا ہیں۔ ماضی کے واقعات کے پیش نظر، آپ سے گزارش ہے کہ ٹہری بازار، ٹین والی مسجد “گول چوراہا سید واڑہ، بیگم پورہ، دوراہا کنواں اور مغل پورہ سمیت دیگر مقامات پر نگرانی بڑھائی جائے اور حفاظتی انتظامات کو مزید بہتر بنایا جائے۔”

ایودھیا ضلع میں تقریباً 25 لاکھ مسلمان رہتے ہیں جو کل آبادی کا 14.8 فیصد ہے۔ مندر کے چار کلومیٹر کے دائرے میں تقریباً 5 ہزار مسلمان رہتے ہیں۔ ایودھیا میں سنی سنٹرل وقف بورڈ کی ذیلی کمیٹی کے چیئرمین محمد اعظم قادری نے اخبار کو بتایا، ’’کچھ مسلمانوں نے اپنے بچوں اور خواتین کے خاندان کے افراد کو لکھنؤ، بارہ بنکی اور دیگر قریبی اضلاع میں رشتہ داروں کے گھر بھیج دیا ہے۔ “ہم نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کیونکہ انتظامیہ نے ہمیں تحفظ کی ضمانت دی ہے، لیکن 1990 اور 1992 کے فرقہ وارانہ واقعات کے خوف کو بہت سے لوگوں کے لیے بھولنا مشکل ہے۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں