ہندوستان کے معروف صحافی ظفر آغا کا انتقال

حیدرآباد (دکن فائلز) نیشنل ہیرالڈ کے ایڈیٹر انچیف ظفر آغا کا جمعہ کی صبح جنوبی دہلی کے ایک اسپتال میں مختصر سی علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ وہ 70 سال کے تھے۔ 1979 میں لنک میگزین سے بطور صحافی اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے آغا کے پسماندگان میں ایک بیٹا (مونس) ہے۔ ظفر آغا نے آج صبح 5.30 بجے دہلی کے وسنت کنج کے فورٹس اسپتال میں آخری سانس لی۔

اپنے 45 سالہ کیریئر میں انہوں نے دی پیٹریاٹ، بزنس اینڈ پولیٹیکل آبزرور، انڈیا ٹوڈے، ای ٹی وی اور روزنامہ انقلاب کے ساتھ بھی کام کیا۔ بطور صحافی ان کا آخری دور نیشنل ہیرالڈ گروپ کے ساتھ تھا، پہلے اردو روزنامہ قومی آواز کے ایڈیٹر اور پھر نیشنل ہیرالڈ کے چیف ایڈیٹر کے طور پر انہوں نے نمایاں خدمات انجام دیں۔

ظفر آغا نے اقلیتی تعلیمی اداروں کے قومی کمیشن کے رکن اور باضابطہ چیئرپرسن کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ انہوں نے الہ آباد یادگار حسینی انٹر کالج میں تعلیم حاصل کی اور الہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی میں ماسٹرز کیا۔

مشہور و معروف صحافی ظفر آغا آج سینکڑوں غمزدہ افراد کی موجودگی میں دہلی کے پریس انکلیو، ساکیت واقع حوض رانی قبرستان میں سپردِ خاک ہو گئے۔ آج صبح تقریباً 5.30 بجے دہلی ایمس میں ان کا انتقال ہوا جس کے بعد ظفر آغا کا جسد خاکی شاہ مرداں (بی کے دَت کالونی)، جور باغ لے جایا گیا۔ نمازِ جمعہ کے بعد نمازِ جناہ پڑھائی گئی اور پھر انھیں تدفین کے لیے پریس انکلیو، ساکیت سے متصل حوض رانی قبرستان لے جایا گیا۔

تقریباً 4 بجے ظفر آغا کے جسد خاکی کو سپردِ خاک کیا گیا اور وہاں موجود کئی مشہور و معزز شخصیات نے انھیں مٹی دی۔ ظفر آغا کو آخری وداعی دینے قبرستان پہنچے لوگوں میں راجدیپ سردیسائی، پنکج پچوری، سعید نقوی، گوہر رضا، سہیل ہاشمی، ایم کے وینو، امت بروا، رام رحمان، سمن دوبے، قربان علی، جاوید انصاری، ادیتی نگم، شبنم ہاشمی، رینو متل، اپوروانند، کنشک سنگھ، مرلی کرشنن، شبھرا گپتا، مدھو سودن سرینواس، نتیا راماکرشنن وغیرہ شامل ہیں۔ اس موقع پر سبھی نے وہاں موجود ظفر آغا کے بھائی قمر آغا اور بیٹے مونس آغا سے تعزیت کا اظہارِ کیا اور صبر جمیل کے لیے دعا بھی دی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں