شہید اسماعیل ہنیہ کی زندگی پر ایک نظر

حیدرآباد (دکن فائلز) حماس رہنما اسماعیل ہنیہ ایران کے دارالحکومت تہران میں قاتلانہ حملے کے دوران شہید ہوگئے ہیں۔ اسماعیل ہنیہ 1962 میں غزہ کے مغرب میں شاتی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے عربی ادب کی تعلیم حاصل کی اور وہی سے وہ اسلامی تحریک کا حصہ بنے جب کہ 1987 میں انہوں نے اپنی گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ حماس رہنما نے اپنی کزن امل ہنیہ سے شادی کی جس سے ان کے 13 بچے تھے جن میں 8 لڑکے اور 5 لڑکیاں شامل ہیں۔ ان کے سخت بیانات کے باوجود سیاسی مبصرین و تجزیہ کار انہیں اعتدال پسند شخص کے طور پر دیکھا کرتے تھے۔ اسرائیل کے مختلف حملوں کے دوران ان کے بیٹوں نے جام شہادت نوش کیا ہے جب کہ شہیدوں کی فہرست میں ان کے پوتے اور پوتیاں بھی شامل ہیں۔

انہیں 2017 میں خالد مشعل کی جگہ حماس کے سیاسی شعبے کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا، وہ دسویں فلسطینی حکومت کے وزیر اعظم بھی تھے۔ مزاحمتی تحریک حماس کے سیاسی شعبہ کے سربراہ کی قیادت میں ہی 15 جنوری کے انتخابات میں حماس نے فلسطینی قانون ساز کونسل کی 132 نشستوں میں سے 76 نشستیں حاصل کی تھیں۔

2018 میں امریکہ نے فلسطینی اسلامی تحریک حماس کے سیاسی رہنما کو دہشت گرد قرار دے کر ان پر پابندیاں عائد کردیں تھیں۔ سنہ 1987 میں اسرائیلی قبضے کے خلاف عوامی بغاوت شروع ہوئی تو ایک مظاہرے کے دوران انہیں مختصر وقت کے لیے پہلی مرتبہ گرفتار کیا گیا۔ دوسری مرتبہ 1988 میں انہیں گرفتار کیا گیا جس کے بعد چھ ماہ کی قید ہوئی، بعد ازاں انہیں ایک مرتبہ پھر گرفتار کرکے تین سال قید کی سزا سنائی گئی تاہم سزا پوری ہونے کے بعد انہیں جنوبی لبنان میں جلا وطن کردیا گیا۔

اسماعیل ہنیہ ایرانی صدر مسعود پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے کہ انہیں نشانہ بناکر آج شہید کردیا گیا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل کی جانب سے نشانہ بنایا گیا ہے جب کہ اسرائیل کی جانب سے اس پر اب تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں