اسرائیل کیلئے خوف و دہشت کی علامت ’یحییٰ السنوار‘ کون ہیں؟

(ایجنسیز) بین الاقوامی میڈیا کے مطابق غزہ میں 2017 سے فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے سربراہ کے طور پر فرائض انجام دینے والے 61 سالہ یحییٰ السنوار خان یونس میں غزہ سٹی کے جنوبی علاقے میں ایک مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے۔

یحییٰ السنوار کو جرات مند اور اسرائیل کے سخت دشمن کے طور پر جانا جاتا ہے۔ حماس کے نئے سربراہ نے اپنی جوانی کا نصف سے زائد عرصہ اسرائیل کی جیلوں میں گزارا اور انہیں جنگی حربوں پر مہارت اور اسرائیل کی چالوں سے واقفیت کی بنا پر اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد سب سے مضبوط رہنما تصور کیا جاتا تھا۔ یحییٰ السنوار کو اسرائیل پر حملوں اور خاص طور پر گزشتہ برس کیے گئے حملے کا آرکیٹکٹ مانا جاتا ہے اور وہ تب سے غزہ میں موجود ہیں جبکہ اسرائیل کئی کوششوں کے باوجود ان کو نشانہ بنانے سے قاصر ہے۔

یروشلم سینٹر فار پبلک افیئرز نے فروری 2024 میں ایک مضمون میں لکھا کہ یحییٰ السنوار حقیقی انداز میں شیخ احمد یاسین کے 2027 تک اسرائیل کے خاتمے کے ہدف پر متحرک انداز میں کام کر رہے ہیں۔ مذکورہ مضمون میں دعویٰ کیا گیا کہ یحییٰ السنوار نے حماس کے غزہ میں لیڈر کی حیثیت میں 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیلیوں پر حملہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا جو اسرائیل کی ریاست کی تنزلی کے لیے ان کی حکمت عملی کا ابتدائی مرحلہ تھا۔

اسرائیل کی فوج نے یحییٰ السنوار کو 1989 میں خان یونس سے حراست میں لیا اور انہیں دو اسرائیلی فوجیوں کے اغوا اور قتل کے علاوہ 4 فلسطینیوں کے قتل کے الزام میں مسلسل عمر قید کی سزا سنائی تھی اور 2011 میں قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے شالیط کے تحت رہا کردیا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ کہ شیخ احمد یاسین نے انہیں المجد سیکیورٹی ایجنسی کا سربراہ بنایا تھا اور اس کا کام اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کے لیے جاسوسی کرنے والے فلسطینیوں کا سراغ لگانا اور صفایا کرنا تھا۔

اسرائیل قید کے دوران یحییٰ السنواری سے 180 گھنٹے تفتیش کرنے والے شین بیٹ کے سابق عہدیدار مائیکل کوبی نے بتایا کہ انہوں نے دہشت اور کمانڈ کرنے کی اپنی صلاحیت کا واضح اظہار کیا۔ کوبی کے مطابق تفتیش کے دوران جب یحییٰ السنواری 28 یا 29 سال کے تھے تو سوال پوچھا کہ آپ نے شادی کیوں نہیں کی تو ان کا جواب تھا کہ ‘حماس میری اہلیہ، حماس میرا بچہ ہے اور حماس میرے لیے سب کچھ ہے’۔

اسرائیلی جیل سروس کی انٹیلیجینس ڈویژن کے سابق سربراہ یووال بٹن نے اکتوبر میں میڈیا کو انٹرویو کے دوران یحییٰ السنوار کی قید کے دوران واقعات کے حوالے سے بتایا تھا کہ اس وقت ان کے ہاتھ یہودیوں کے خون نہیں رنگے ہوئے تھے اور ان کے ہاتھوں فلسطینی خون بہا تھا۔

یووال بٹن نے کہا کہ اسرائیلی ڈاکٹروں نے 2004 میں یحییٰ السنوار کے دماغ سے رسولی نکالی تھی، ہم نے ان کی زندگی بچائی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے مقصد کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتے اور قید کے دوران ایک دفعہ 1600 قیدیوں کی قیادت کرتے ہوئے بھوک ہڑتال کی تھی۔ اسرائیلی جیل کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ نے کہا کہ یحییٰ السنوار اپنے اصولوں کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار تھے۔

مختصر سوانحی خاکہ
یحییٰ السنوار 1962 میں خان یونس میں پیدا ہوئے تھے۔ ابھی ان کی عمر پانچ برس تھی کہ اسرائیل نے اس شہر پر قبضہ کر لیا۔ السنوار کے خاندان کا تعلق فلسطینی گاؤں المجدل عسقلان سے ہے، جہاں سے اسرائیل نے 1948 میں فلسطینیوں کو بےدخل کر دیا تھا۔ اب یہ علاقہ اسرائیلی شہر عسقلان کا حصہ ہے۔

نوجوانی ہی میں سنوار نے غزہ میں اخوان المسلمون کی تحریک میں شمولیت اختیار کی، جس کا نام 1987 کے آخر میں بدل کر حماس تحریک میں تبدیل ہو گیا۔ السنوار نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور عربی زبان میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔  یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران وہ اخوان المسلمون کے سٹوڈنٹ ونگ ’اسلامی بلاک‘ کے سربراہ بھی رہے۔
 
سنوار نے 1985 میں اخوان المسلمون کے سکیورٹی ونگ کی بنیاد رکھی، جسے ’المجد‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا بنیادی ہدف غزہ کی پٹی میں اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کرنا تھا

61 سالہ یحییٰ  السنوار نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی انہیں ابو ابراہیم بھی کہا جاتا ہے۔ مختلف اسرائیلی جیلوں میں 23 سال تک قید کاٹنے کے دوران یحیی السنوار نے عبرانی زبان میں اتنی مہارت حاصل کر لی تھی کہ وہ یہ زبان روانی سے بول سکتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی ثفاقت اور معاشرے کی بڑی گہری سوجھ بوجھ بھی رکھتا ہے۔

السنوار کو دو اسرائیلی فوجیوں کے قتل کے جرم میں چار مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ پھر 2011ء میں جب اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کی رہائی سے متعلق مفاہمت ہو گئی، تو اسرائیل نے جن 1,027 فلسطینیوں کو رہا کیا تھا، ان میں سے یحییٰ السنوار سب سے سینیئر فلسطینی قیدی تھے۔

اسرائیلی جیل سے رہائی کے بعد یحییٰ السنوار نہ صرف عزالدین القسام بریگیڈز کا سینیئر کمانڈر بن گئے بلکہ انہوں نے حماس کے اس عسکری بازو کی قیادت کے ساتھ ساتھ غزہ پٹی میں اس عسکریت پسند گروپ کی مجموعی قیادت بھی سنبھال لی تھی۔

غزہ میں حماس کے اس سربراہ کا نام امریکہ نے 2015ء میں اپنی سب سے زیادہ مطلوب ”بین الاقوامی دہشت گردوں‘‘ کی فہرست میں بھی شامل کر لیا تھا۔ اس فہرست میں حماس کی عزالدین القسام بریگیڈز کے موجودہ کمانڈر محمد ضیف کا نام بھی شامل ہے، جسے سات اکتوبر کو اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے کا دوسرا ماسٹر مائنڈ قرار دیا جاتا ہے۔

غزہ میں حماس کے نئے سربراہ یحییٰ السنوار کا نام امریکہ نے 2015ء میں اپنی سب سے زیادہ مطلوب ”بین الاقوامی دہشت گردوں‘‘ کی فہرست میں بھی شامل کر لیا تھا۔ 

اس فہرست میں حماس کی عزالدین القسام بریگیڈز کے موجودہ کمانڈر محمد ضیف کا نام بھی شامل ہے، جسے سات اکتوبر کو اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے کا دوسرا ماسٹر مائنڈ قرار دیا جاتا ہے۔یحی

غزہ کی پٹی سے باہر سکیورٹی ذرائع کے مطابق یحییٰ السنوار اور محمد ضیف اس وقت بظاہر غزہ پٹی کے علاقے میں موجود سرنگوں کے طویل زیر زمین نیٹ ورک میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں