تاریخی مساجد کے خلاف فرقہ پرستوں کی سازش کےلئے سپریم کورٹ ذمہ دار! بابری مسجد مقدمہ میں مسلمانوں کے وکیل راجو رام چندرن کا بیان

(ایجنسیز) یٹ راجورام چندرن نے کہا کہ ’اس وقت ملک میں قدیم مسجدوں اور مذہبی مقامات میں مندر تلاش کرنے کی فرقہ پرست عناصر نے جومہم شروع کر رکھی ہے اس کیلئے سپریم کورٹ ذمہ دار ہےجس نے گزشتہ سال بنارس کی تاریخی گیان واپی جامع مسجد میں سروے کی اجازت دے کر اس شر انگیز مہم کا دروازہ کھولا ۔ یہ بات سپریم کورٹ کے نامور سینئر وکیل راجو رام چندر ن نے کہی جو بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ میں مسلم فریق کے وکیل تھے۔ ساؤتھ ایشین مائنارٹیز لائرز ایسوسی ایشن (ساملا) نے یوم آئین کے موقع پر انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے اشتراک سے گزشتہ شام اسلامک سینٹر میں ’’آزادی ٔ ضمیر‘‘ کے عنوان سے راجو رام چندرن کا خصوصی خطبہ رکھا تھا۔

’ساملا ‘کی ایک پریس ریلیز کے مطابق راجو رام چندرن نے اپنے لیکچر میں مسئلے کا تفصیلی احاطہ کرتے ہوئےاور عدالت عظمیٰ کے متعدد فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ یہ حقوق مسلمہ ہیں اور مذہبی ، علاقائی ، لسانی اور نسلی ہر نوع کی اقلیتی برادریوں کے حقوق کی آئین میں پاسداری کی گئی ہے ۔ رام چندرن نے کہا کہ ’’ دستور کی دفعہ ۲۵؍ مذہبی آزادی اور اس پر چلنے اور تبلیغ کرنے کی ضمانت دیتی ہے اور گزشتہ۷۵؍برسوں میں سپریم کورٹ کے جو فیصلے آئے ہیں ان میں بیشتر اس حق کا دفاع کیا گیا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’ تبدیلیٔ مذہب کی آزادی کی بھی دستور ضمانت دیتا ہے ۔اس مسئلے میں دستور ساز اسمبلی میں زوردار بحث ہوئی تھی اور اس اصول کو تسلیم کیا گیا تھا کہ فرد کا اپنا مذہبی عقیدہ تبدیل کرنا اس کا بنیادی حق ہے۔ اس آئینی اصول کے باوجود متعدد ریاستوں نے ’’انسداد تبدیلی مذہب‘‘ کے عنوان سے ایسے قوانین بنائے ہیں جو اس بنیادی اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔‘‘

حال ہی میں یوپی کے قصبہ سنبھل میں المناک واقعات پیش آئے ہیں اور ان میں پانچ معصوم جانوں کا اتلاف ہوا ہے۔ اس تناظر میں زیر تنازع مذہبی مقامات وارانسی اور متھرا کا حوالہ دیتے ہوے راجو رام چندرن نےکہاکہ ’’سپریم کورٹ نے بابری مسجد بنام رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ میں مذہبی مقامات کے ۱۹۴۷ءسے پہلے کی حالت پر برقرار رکھنے کے متعلق قانون کے احترام اور پاسداری پر بڑا زور دیا تھا لیکن خود اس فیصلہ کے خلاف جاکر گزشتہ سال سپریم کورٹ نے گیان واپی جامع مسجد میں سروے کی اجازت دے دی ۔ اس فیصلے نے قدیم مسجدوں میں مندر تلاش کرنے کا ایک دروازہ کھول دیا ہے۔‘‘ سنبھل کی جامع مسجد کا نام لیے بغیر انہوں نے کہا کہ ’’ اس وقت ملک میں اس حوالے سے جو کیفیت پیدا ہوئی ہے اس کیلئے عدلیہ ذمہ دار ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر۱۹۹۱ء کے مذہبی مقامات کے قانون کی پیروی کی جاتی تو آج یہ حالات پیدا نہیں ہوتے۔‘‘جلسے کی صدارت کرتے ہوئے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کے صدر اور سابق وزیر قانون و نامور وکیل سلمان خورشید نے کہا کہ دستور نے اقلیتوں کیلئے جو ضمانتیں فراہم کی ہیں ان پر نیک نیتی سے عمل کیا جانا چاہئے ۔ یوم دستور کا بھی یہی پیغام ہے۔
(بشکریہ: انقلاب)

اپنا تبصرہ بھیجیں