حیدرآباد (دکن فائلز) عبادت گاہوں کے تحفظ قانون معاملہ میں آج سپریم کورٹ میں اہم سماعت ہوئی۔ عدالت عظمیٰ نے ملک بھر کی ٹرائل کورٹس کو ہدایت کی کہ وہ مذہبی کردار کو متنازعہ بنانے والے مقدمات میں سروے یا موجودہ مذہبی ڈھانچوں کے خلاف کوئی احکامات نہ دیں۔
بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ اور جسٹس پی وی سنجے کمار اور کے وی وشواناتھن کی بنچ نے کہا کہ عبادت گاہوں کے تحفظ (خصوصی دفعات) ایکٹ 1991 واضح طور پر اس طرح کے مقدموں پر پابندی لگاتا ہے۔ بنچ نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے ایودھیا فیصلے میں اس کی تصدیق کی ہے۔
“چونکہ معاملہ اس عدالت کے سامنے زیر سماعت ہے، ہم یہ ہدایت دینا مناسب سمجھتے ہیں کہ کوئی نیا مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی کارروائی کا حکم دیا جائے گا۔ زیر التوا مقدمات میں، عدالتیں کوئی موثر حکم یا حتمی حکم جاری نہیں کریں گی۔ جب کوئی معاملہ زیر التوا ہو۔
سپریم کورٹ میں بدھ کو عبادت گاہوں (خصوصی دفعات) ایکٹ 1991 کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ سی جے آئی نے واضح طور پر کہا کہ کیس کی اگلی سماعت تک مندر-مسجد سے متعلق کوئی نیا مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کو مرکز کے جواب کا انتظار ہے، فی الحال ملک بھر میں مندر-مسجد سے متعلق کوئی نیا مقدمہ دائر نہیں کیا جا سکتا ہے، سی جے آئی نے کہا، “ہم ایک بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگلی سماعت تک اس سے متعلق کوئی نئی عرضی داخل نہیں کی جا سکتی ہے۔” عدالت نے تمام فریقین سے کہا کہ وہ اپنے دلائل مکمل طور پر تیار رکھیں تاکہ کیس کو جلد نمٹایا جا سکے۔
سنبھل سانحہ اور اجمیر درگا ہ پر ہندوؤں کے دعوے کے پس منظر میں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء کی جانب سے عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کے تعلق سے داخل پٹیشن پر سپریم کورٹ نے 1991 ایکٹ کی اہمیت کا اعتراف کیا۔ عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کی برقراری اور اس کے مؤثر نفاذ کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل پٹیشن پر سینئر ایڈوکیٹ راجو رام چندرن نے زبردست بحث کی۔ جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو چیلنج کرنے والی عرضداشتوں پر بھی عدالت میں اپنے دلائل پیش کیں۔
سپریم کورٹ نے مذہبی مقامات سے متعلق مقدمات اور سروے پر 1991 کے عبادت گاہ تحفظ ایکٹ کے تحت روک لگا دی۔ یہ قانون 15 اگست 1947 کی حالت کے مطابق مذہبی ڈھانچوں کے کردار میں تبدیلی پر پابندی لگاتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ نئے مقدمات یا سروے اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتے جب تک اس قانون کی آئینی حیثیت پر فیصلہ نہ ہو۔
سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد عبادت گاہ تحفظ ایکٹ کی آئینی حیثیت طئے ہونے تک ملک بھر میں اس طرح کا کوئی نیا مقدمہ درج نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس طرح کے مقدمات میں عدالت کوئی فیصلہ سناسکتی ہے۔ اب عدالتوں کی جانب سے سروے کے احکامات دینے پر بھی پابندی رہے گی۔ واضح رہے کہ فی الحال ملک بھر میں 10 مذہبی مقامات پر 18 مقدمے چل رہے ہیں.