وقف قانون میں کی گئیں تمام تبدیلیاں غیر آئینی، وقف کوئی سیکولر چیز نہیں، ایک خالص مذہبی معاملہ: مولانا ارشد مدنی کی جانب سے سپریم کورٹ میں کپل سبل کی مدلل بحث (تفصیلی رپورٹ)

دہلی : مرکزی سرکار کی جانب سے بنائے گئے وقف ترمیمی قانون2025 کے خلاف داخل عرضداشتوں پر آج سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت عمل میں آئی،سماعت شروع ہونے سے قبل ہی اس وقت تنازعہ پیدا ہوگیا جب سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ سماعت پر یہ طے ہوا تھا کہ صرف تین نکتوں پر بحث ہوگی لیکن آج مکمل پٹیشن پر سماعت کئے جانے کی گذارش کی جارہی ہے جس پر سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے کہا کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ ہم اس وقت بھی مکمل پٹیشن پر بحث کرنے کے لئے تیار تھے اور آج بھی ہیں، ہمارا اعتراض تمام ترمیمات پر ہے۔

سالیسٹر نے دبے الفاط میں مسلم فریق پر الزام لگایا کہ آج وہ موجودہ چیف جسٹس کے سامنے دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں کیونکہ گزشتہ سماعتوں پر صرف تین ایشوز پر عبوری اسٹے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ اسی درمیان چیف جسٹس بی آر گوئی نے معاملہ رفع دفع کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے ریکارڈ میں جو موجود ہے اس کے مطابق سماعت ہوگی۔ دو گھنٹہ بحث کرنے کے لئے عرضی گذار کو دیا گیا ہے لہذا انہیں بحث کاآغازکرنے دیا جائے۔

چیف جسٹس بی آر گوئی اورجسٹس جارج مسیح کی سربراہی والی دو رکنی بینچ نے کہا کہ پارلیمنٹ کی جانب سے بنائے گئے کسی بھی قانون کو بالفرض قانون ماننے کی روایت رہی ہے، عدالتیں ایسے معاملات میں قانون پر اسٹے نہیں دیتیں بشرطیکہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ کی گئی ہو۔ ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے کہ کسی قانون پر اسٹے دیا جائے۔

چیف جسٹس کے اس تبصرہ پر کپل سبل نے کہا کہ اس معاملے میں بنیادی حقوق کی پامالی کی گئی ہے لہذا عدالت کو مداخلت کرنی پڑے گی۔یہ کوئی عام معاملہ نہیں ہے بلکہ اس قانون کے نافذالعمل ہونے سے مسلمانوں کو بہت بڑا نقصان ہونے والا ہے۔آج سب سے پہلے جمعتہ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے بحث کی اور عدالت کو بتایا کہ وقف قانون میں ترمیمات غیر آئینی ہیں،کیونکہ ان ترمیمات کی وجہ سے اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے دوسرے مذہبی معاملات میں یہ حکومت کی براہ راست مداخلت ہے،اوریہ کہ وقف املاک پر مکمل قبضہ کرنے کے مقاصد سے موجودہ حکومت نے وقف قانون میں ترمیمات کی ہیں۔

سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے عدالت کو مزید بتایا کہ وقف ترمیمات میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ کے نام پر پراپرٹی وقف کرنے کے لئے مسلمان ہونا لازمی ہے،اوروہ پانچ سال سے مسلمان ہو یعنی کہ وہ عبادت کرتا ہو اور اسلامی امور انجام دیتا ہو۔ یہ کون طے کریگا اور کیسے کریگا؟ قانون میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔ اسی طرح سیٹرل وقف قونسل میں غیر مسلم کی شرکت بھی غیر آئینی ہے۔ تازہ ترمیمات کی وجہ سے قونسل میں غیر مسلم کی اکثریت ہوگی پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔اسی طرح بورڈ میں بھی یہ معاملہ ہوگا۔ نامزد کردہ غیر مسلم ممبران کی تعداد اکثریت میں آجائے گی۔ پہلے کے قانون میں تمام ممبران کے مسلم ہونے کا قانون تھا لیکن تازہ ترمیمات میں اس میں سہولت پیدا کردی گئی جس کی وجہ سے غیر مسلم ممبران کی بھی تقرری ہوسکتی ہے۔

کپل سبل نے عدالت کی توجہ دوسرے مذاہب کی نمائندگی کرنے والے اداروں کے ممبران کی طرف مبذول کرائی جس میں صرف ہندوؤں کی تقرری کا قانون ہے۔وقف کوئی سیکولر چیز نہیں ہے بلکہ یہ خالص مسلم مذہبی معاملہ ہے۔سی ای او کی تقرری بھی ریاستی سرکار کریگی۔ پہلے سی ای او صرف مسلم ہوا کرتے تھے اب یہ پابندی ہٹا لی گئی ہے۔ غیر مسلم سی ای او ہوسکتے ہیں جو بہت پریشان کرنے والی بات ہے۔وقف ٹریبونل کے تعلق سے کپل سبل نے بتایا کہ کلکٹر کے فیصلے کے خلاف واقف کو ٹریبونل جانا پڑے گا اور وہاں ثابت کرنا پڑے گا کہ وقف پراپرٹی کی کیا حیثیت تھی۔ وقف ٹریبونل میں ثابت کرتے کرتے وقف پراپرٹی کا خاتمہ ہوجائے گا کیونکہ حکومت اس کا مقصد تبدیل کر دیگی اور اسے اپنے استعمال میں لے لی گی۔وقف بائی یوزر پراپرٹی کے تعلق سے عدالت کو بتایا گیا کہ تازہ ترمیمات کی وجہ سے وقف بائی یوزر کے متعلق اگر کوئی تنازعہ ہوتا ہے تو وقف پراپرٹی وقف باقی نہیں رہے گی۔ کوئی تیسرا فریق اگر دعویٰ کرتا ہے تو وقف پراپرٹی دعویٰ فیصل ہونے تک حکومت کے قبضے میں چلی جائے گی۔

وقف پراپرٹی کے آن لائن پورٹل پر اندراج کے تعلق سے کپل سبل نے عدالت کو بتایا کہ چھ ماہ کے اندر اگر وقف املاک کا آن لائن اندراج نہیں کیا گیا تو متولی کو جیل ہوسکتی ہے۔ وقف کس نے کیا اور کب کیا اس کی معلومات متولی کو آن لائن درج کرنا ہوگی ورنہ اسے سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔جناب کپل سبل نے آگے کہا کہ صدیوں پرانی وقف املاک کی معلومات متولی کے پاس ہونا ناممکن ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام وقف پراپرٹی کے تعلق سے بھی تازہ ترمیمات حکومت کو غیر آئینی اختیارات دیتا ہے۔ان املاک کی حفاظت کے نام پر حکومت انہیں اپنے قبضے میں لینا چاہتی ہے۔جامع مسجد سنبھل کے تعلق سے کپل سبل نے بتایا کہ وقف قانون میں ترمیمات کے بعد وقف اراضی کو حکومت نے اپنے قبضہ میں لے لیا ہے یہ کہتے ہوئے کہ یہ محفوظ یادگار ہے۔جے پی سی میں اہم ترمیمات کے تعلق سے گفتگو ہی نہیں کی گئی اور اعتراضات داخل کرنے کا موقع تک نہیں دیا گیا بلکہ بل سے ڈائرکٹ قانون بنا دیا گیا، پارلیمنٹ میں ووٹنگ کے وقت بھی دفعہ 3(E) 3(D) کو پیش نہیں کیا گیا تھا۔

وقف رجسٹریشن کے تعلق سے عدالت کو کپل سبل نے بتایا کہ جن اوقاف کا پہلے رجسٹریشن ہوچکا ہے ان کی تفصیلات دینے کے لیئے حکم دیا گیا ہے، تفصیلات نہ دینے کی صورت میں وقف املاک کو غیر رجسٹرڈ سمجھا جائے گا اور پھر اس پر کلکٹر کا اختیار ہوگا۔ رجسٹریشن کے نام پر ہراساں کیا جارہا ہے۔ ایسی چیزیں طلب کی جارہی ہیں جن کی تفصیلات آج مہیا کرانا ناممکن ہے۔دوران سماعت کپل سبل نے وقف ترمیمی قانون 2025 میں کی گئی تمام دفعات پر عدالت کی توجہ مبذول کرائی اور اسے غیر آئینی قرار دیا۔سماعت کے دوران دو رکنی بینچ نے کپل سبل کی جانب سے کی گئی بحث کے اہم نکات نوٹ کئے۔

سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل کی بحث کے اختتام کے بعد ڈاکٹر راجیو دھون نے بحث کی،اوران کے بعد ڈاکٹر منو سنگھوی نے بھی بحث کی اور وقف ترمیمات کو غیر آئینی بتایا اور کہا کہ عدالت نے کسان قوانین پر اسٹے لگایا تھا لہذا عدالت کسی بھی ایسے قانون پر اسٹے لگا سکتی ہے جو غیر آئینی ہو۔سینئر ایڈوکیٹ سی یو سنگھ، حذیفہ احمدی نے بھی مختصر بحث کی۔آج فریقین کی بحث نا مکمل رہی جس کے بعد عدالت نے بقیہ بحث کے لئے کل کا دن مقرر کیا ہے۔

وقف قانون نافذالعمل ہونے کے بعد جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ وکیل کپل سبل نے وقف ترمیم قانون کے خلاف داخل عرضداشت پر جلداز جلد سماعت کیئے جانے کی چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ سے گذارش کی تھی جس کے بعد چار مرتبہ مقدمہ سماعت کے لئے پیش ہوا لیکن کسی بھی طرح کا حکم جاری نہیں ہوسکا۔ وقف ترمیمی قانون پر صدرجمہوریہ کی مہر لگ جانے کے بعد مولانا ارشد مدنی نے سب سے پہلے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی تھی۔

مولانا ارشد مدنی نے وقف ترمیمی قانون کی مختلف دفعات کو نہ صرف چیلنج کیا ہے بلکہ قانون کو نافذ العمل ہونے سے روکنے کے لئے عدالت سے عبوری درخواست بھی کی ہے۔ مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر ایڈوکیٹ آن ریکارڈ فضیل ایوبی نے پٹیشن داخل کی ہے جس میں تحریر ہے کہ یہ قانون غیرآئینی ہے اور وقف انتظامیہ اور وقف کے لیئے تباہ کن ہے، جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن کا ڈائر ی نمبر 18261/2025ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں