حیدرآباد (دکن فائلز) غزہ کے شہری ’عماد نَبہان‘ جب اسرائیلی جیل سدیه تیمان سے رہائی پانے کے بعد باہر نکلے تو ان کے جسم پر تشدد کے نشانات اور روح پر اذیت کے زخم واضح تھے۔ اسرائیلی قید سے آزاد ہونے کے بعد انہوں نے کہا کہ “میں جیل سے آزاد ہوا ہوں، لیکن جیل مجھ سے آزاد نہیں ہوئی”۔
عماد نَبہان کو د سمبر 2023ء میں اسرائیلی فوج نے گرفتار کیا۔ بعد ازاں انہیں جنوبی اسرائیل میں قائم ایک خفیہ اور غیرقانونی عقوبت خانے سدیه تیمان منتقل کر دیا گیا، جہاں درجنوں فلسطینی شہریوں کو تفتیش کے نام پر اذیت دی جاتی رہی۔
انہوں نے کہا کہ “مجھے وہاں قید نہیں کیا گیا، دفن کر دیا گیا تھا۔ میں نے پینتیس دن لوہے کے تابوت میں گزارے، جہاں سانس لینا بھی جرم لگتا تھا”۔ عماد نَبہان کے مطابق انہیں ابتدائی بارہ دن ایک ایسے کمرے میں رکھا گیا جسے فوجی طنزاً “موسیقی کا کمرہ” کہتے تھے۔ یہ جگہ مسلسل شور، چیخوں، دھماکوں اور بلند آوازوں سے بھری رہتی تھی تاکہ قیدیوں کا ذہنی توازن بگڑ جائے۔ “ہمیں نیند سے محروم رکھا جاتا۔ ہر لمحہ بجلی کے جھٹکے، شور اور اندھیرے کا امتزاج تھا۔ انسان کو یوں لگتا جیسے وہ خود اپنی چیخیں سن رہا ہو”۔
عماد نَبہان نے بتایا کہ تفتیش کاروں نے انہیں برقی کرسی پر بٹھا کر پاؤں میں تار باندھی اور جھٹکوں کے ساتھ سوالات کیے۔ “تفتیش کاروں نے کہاکہ اگر تعاون کرو تو اپنے گھر والوں سے ملاقات کرا دیں گے۔ میں نے جواب دیا، تم میری زبان سے الفاظ نکال سکتے ہو، مگر میرا ایمان نہیں”۔
کھانے کے نام پر خشک روٹی اور چند گھونٹ پانی دیے جاتے۔ بعض اوقات دنوں تک بھوکا رکھا جاتا تاکہ جسمانی کمزوری ذہنی شکست میں بدل جائے۔ تفتیش کے بعد عماد نَبہان کو ایک تنگ آہنی پنجرے میں پھینک دیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ “یہ قید خانہ نہیں بلکہ ایک تابوت تھا۔ میں نہ سیدھا لیٹ سکتا تھا نہ ہل سکتا۔ دن میں صرف ایک بار پائپ کے ذریعے مائع دیا جاتا۔ میں نے وقت کا احساس کھو دیا تھا۔ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ میں زندہ نہیں رہا”۔
اسی عقوبت خانے میں کئی دوسرے قیدیوں کی حالت بگڑ گئی۔ کچھ ہوش کھو بیٹھے، کچھ کی لاشیں خاموشی سے اٹھالی گئیں۔ بعد ازاں انہیں دیگر جیلوں میں منتقل کیا گیا جہاں حالات بدتر تھے۔ صفائی نہ ہونے کے باعث قیدیوں کے جسم پر زخم اور پھوڑے نکل آئے۔ “کئی اسیر خارش اور انفیکشن سے مر گئے۔ کسی کو دوا نہیں دی گئی۔ گندے کمبل، بھوک اور تعفن نے ہر سانس کو عذاب بنا دیا تھا”۔
تفتیش کاروں نے قیدیوں کے حوصلے توڑنے کے لیے نفسیاتی حربے استعمال کیے۔ عماد نَبہان نے بتایا کہ “مجھے روز بتایا جاتا کہ میرا خاندان ملبے کے نیچے دب گیا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں ٹوٹ جاؤں۔ مگر میں نے خاموشی کو اپنا ہتھیار بنایا”۔
چند ہفتوں بعد انہیں معلوم ہوا کہ واقعی ان کے کچھ رشتہ دار شہید ہوچکے ہیں، لیکن انہوں نے صبر کو اپنی مزاحمت بنا لیا۔ انہوں نے کہا کہ “ہم بھوک سے لڑتے تھے، مگر ہار نہیں مانتے تھے” قابض جیلوں میں قیدیوں کو صرف اتنا کھانا دیا جاتا کہ وہ زندہ رہ سکیں۔
عماد نَبہان کہتے ہیں “ہم تینوں معمولی خوراکیں جمع کر کے ایک وقت میں کھاتے تاکہ جسم میں کچھ طاقت باقی رہے۔ بھوک ہماری سب سے بڑی آزمائش تھی، مگر ہم نے کبھی مزاحمت کا خواب نہیں چھوڑا”۔
یہ کہانی غزہ کے ایک شخص کی نہیں، بلکہ پوری فلسطینی قوم کی اجتماعی اذیت کا استعارہ ہے۔ جب ایک انسان آہنی تابوت میں زندہ رہنے پر مجبور ہو تو یہ سوال پوری دنیا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے ۔کیا انسانیت واقعی زندہ ہے؟۔



