حیدرآباد (دکن فائلز) آسام کے وزیراعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے جمعرات کو ایک تقریب میں ریاست میں مبینہ “ڈیموگرافک انویژن” کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اگر آسام میں مسلم آبادی 50 فیصد سے تجاوز کر گئی تو “دیگر کمیونٹیز کا وجود ختم ہو جائے گا۔”
ایجنڈا آج تک 2025 میں گفتگو کرتے ہوئے سرما نے کہا کہ غیر منظم ہجرت نے کئی دہائیوں سے آسام کی شناخت اور آبادیاتی ڈھانچے کو متاثر کیا ہے۔ ان کے مطابق 2021 میں ریاست میں مسلم آبادی تقریباً 38 فیصد تھی، جو موجودہ رجحان کے حساب سے 2027 تک 40 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
سرما نے کہا کہ ”میاں مسلمان“ انہیں سرکاری اسکیموں کی وجہ سے نہیں بلکہ نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیتے۔ انہوں نے ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ ایک مسلمان شخص نے ان سے کہا تھا کہ اگر ضرورت پڑے تو وہ انہیں گردہ تک عطیہ کرسکتا ہے، ”لیکن ووٹ کبھی نہیں دے سکتا۔‘‘
سرما نے کہا کہ چاہے حکومت 10 ہزار دے یا ایک لاکھ روپے، اس طبقہ کا ووٹ کسی بھی صورت ان کے حق میں نہیں آئے گا۔ ان کے مطابق، ’’آسام میں لوگ اسکیموں پر نہیں، نظریے پر ووٹ دیتے ہیں۔‘‘ وزیراعلیٰ نے کہا کہ 1979 سے 1985 تک جاری آسام آندولن اور اس کے نتیجے میں وجود میں آنے والا آسام معاہدہ غیر قانونی ہجرت کے خوف ہی کی پیداوار تھا۔
سرما کے مطابق، ”40 سال بعد بھی اس معاہدے کو نافذ کرنے کی جدوجہد جاری ہے۔‘‘ انہوں نے الزام لگایا کہ کچھ ”میاں مسلمان“ تقریباً 10 لاکھ ایکڑ جنگلاتی زمین پر قابض ہیں، اور انہی تجاوزات کے خلاف کارروائیوں نے سیاسی مخالفت کو جنم دیا ہے۔
اگرچہ سرما نے سخت بیانات دیے، لیکن ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ ان کے ریاست کے مسلمانوں اور خواتین سے ”بہت اچھے تعلقات“ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر مسلمان ووٹ کانگریس کو دیں تب بھی ان کی حکومت جیتے گی۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ”جو لوگ آسام کے نہیں اور بھارت کے نہیں، وہ میرے لوگ نہیں۔‘‘


