بہار میں مسلم کپڑے فروش پر بربریت اور جبر کے پہاڑ توڑے گئے! ‘حملہ آوروں نے مذہب کی تصدیق کے لیے میرا پرائیویٹ پارٹ چیک کیا’: موت سے پہلے مقتول کا بیان ۔ گودی میڈیا میں سناٹا طاری

فوٹو بشکریہ بھاسکر نیوز پورٹل
حیدرآباد (دکن فائلز) بہار کے ضلع نوادہ میں ایک 35 سالہ شخص، محمد اطہر حسین، کو ہجوم نے بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں وہ چھ دن تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد دم توڑ گیا۔ مقتول کی اہلیہ نے 10 نامزد اور 15 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے۔ پولیس نے اب تک چار ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔

بھاسکر کی رپورٹ کے مطابق محمد اطہر حسین گزشتہ 20 برسوں سے گھر گھر جا کر کپڑے فروخت کرتا تھا۔ 5 دسمبر کو وہ دمری گاؤں سے کپڑے بیچ کر واپس لوٹ رہا تھا کہ روہ تھانہ علاقہ کے بھٹھاپر گاؤں کے قریب 6 سے 7 نشہ میں دھت نوجوانوں نے اسے روک لیا۔

ملزمان نے پہلے اس کا نام پوچھا، اور نام سننے کے بعد اسے زبردستی سائیکل سے اتار کر 8 ہزار روپے لوٹ لیے۔ اس کے بعد اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔ اس پر اینٹوں اور لوہے کی سلاخوں سے وحشیانہ تشدد کیا گیا، جس کے نتیجے میں اس کی انگلیاں اور ہاتھ ٹوٹ گئے، حتیٰ کہ ناخن تک نوچ لیے گئے۔

تشدد یہیں نہیں رکا۔ ملزمان نے اس کی پتلون اتار کر اس کے جسم کی تلاشی لی، لوہے کی سلاخ ڈال کر پٹرول چھڑکا گیا اور جسم کے مختلف حصوں کو گرم سلاخ سے داغا گیا۔ اس کے سر پر اسٹیل راڈ سے وار کیا گیا جس سے شدید چوٹ آئی۔ ایک ملزم اس کے سینے پر بیٹھ کر اس کا گلا دبانے لگا جبکہ دوسرے نے پلیڈ سے اس کا کان کاٹ دیا۔ بعد میں مزید افراد بھی وہاں پہنچ گئے اور تشدد کرنے والوں کی تعداد 15 سے 20 تک پہنچ گئی۔

محمد اطہر حسین کا تعلق بہار شریف کے لہیری تھانہ علاقے کے گاگنڈیوان گاؤں سے تھا۔ وہ اپنے سسرال کے گاؤں باروئی، ضلع نوادہ میں رہتے ہوئے کپڑوں کا کاروبار کرتا تھا۔ روہ تھانہ انچارج رنجن کمار نے تصدیق کی کہ اس معاملہ میں ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔ گرفتار ملزمان میں سونو کمار، رنجن کمار اور شری کمار شامل ہیں، جبکہ دیگر کی تلاش جاری ہے۔ مجسٹریٹ اور فرانزک ٹیم کی موجودگی میں پوسٹ مارٹم کیا گیا۔

اطہر حسین کو مسلمان ہونے پر بربریت اور جبر کا نشانہ بنایا گیا اور ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ شدت پسندوں کی جانب سے اطہر حسین کا قتل کرنے کے باوجود گودی میڈیا میں سناٹا طاری ہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر یہ واقعہ کسی دوسرے طبقہ کے فرد سے جوڑا ہوتا تو یہی گودی میڈیا آسمان سر پر اٹھالیتا۔

مقتول کی اہلیہ شبنم پروین نے اپنی شکایت میں بتایا کہ 8 ہزار روپے لوٹ لیے گئے جبکہ اس کی سائیکل اور کپڑے بھی غائب ہیں۔ اطہر کی موت کے بعد مقدمہ میں قتل کی دفعات شامل کر لی گئی ہیں۔ پولیس کے مطابق اطہر حسین کو پہلے نوادہ صدر اسپتال میں داخل کرایا گیا، بعد ازاں حالت بگڑنے پر پاواپوری وِمز (VIMS) منتقل کیا گیا، جہاں سے پٹنہ لے جاتے وقت اس کی موت ہو گئی۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ 5 دسمبر کو سکندر یادو نے بھی ایک شکایت درج کرائی تھی جس میں اس نے محمد اطہر حسین پر زیورات اور برتن چوری کرنے کا الزام لگایا تھا۔ تاہم، پولیس اس پورے معاملے کی ہر پہلو سے تفتیش کر رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں