طلاقِ حسن جائز، لیکن بہتر طریقہ طلاقِ احسن ہے: طلاق سے متعلق سپریم کورٹ کے تازہ تبصرہ پر ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کا بہرین مضمون (ضرور پڑھیں)

طلاق پر سپریم کورٹ کے تازہ تبصرہ سے متعلق ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کا ایک تفصیلی و بہترین مضمون قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔

ہندوستان کی سپریم کورٹ کے فاضل ججوں نے طلاق حسن کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست پر اہم تبصرہ کرتے ہوئے رائے دی ہے کہ مسلم پرسنل لا میں طلاق حسن کا طریقہ غلط نہیں ہے _ یہ درخواست ایک مسلم خاتون ‘بے نظیر حنا’ نے دی تھی ، جس کا کہنا تھا کہ مسلمانوں میں رائج طلاقِ حسن کا طریقہ آئین کی دفعات 14، 15، 21 اور 25 کی خلاف ورزی ہے ۔ اس عمل میں صرف شوہر کو یک طرفہ طور پر طلاق دینے کا حق ہے، خواہ بیوی کی مرضی ہو یا نہ ہو۔ اس پر فاضل ججوں نے کہا کہ یہ طریقہ غلط نہیں ہے ۔ مسلم خواتین کو بھی نکاح ختم کرنے کا حق حاصل ہے۔ وہ خلع کے ذریعے طلاق لے سکتی ہیں۔

اسلام میں نکاح ختم کرنے کے لیے طلاق کا طریقہ بتایا گیا ہے _ قرآن مجید میں ہے : ” طلاق دو مرتبہ ہے _ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے ، یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے _” (البقرۃ : 229) اگلی آیت میں کہا گیا ہے : ” پھر اگر اس (شوہر) نے (تیسری بار) طلاق دے دی تو وہ عورت اس کے لیے حلال نہ ہوگی ، اِلّا یہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو اور وہ اسے طلاق دے دے ۔”

طلاق حسن یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو پہلی مرتبہ طلاق دینے کے بعد ایک ماہ (ماہ واری) تک انتظار کرتا ہے ۔ اس کے بعد دوسری طلاق دیتا ہے _ پھر ایک ماہ (ماہ واری) انتظار کرنے کے بعد تیسری طلاق دیتا ہے ۔ اس دوران میں میاں بیوی ایک ہی گھر میں ساتھ رہتے ہیں ۔ دونوں کو اپنے رویّوں پر غور کرنے کا موقع ملتا ہے _ دو مرتبہ طلاق دینے کے بعد بھی رجوع کا موقع رہتا ہے ، لیکن تیسری طلاق کے بعد مستقل علیٰحدگی ہوجاتی ہے _

طلاقِ حسن جائز ہے ، لیکن بہتر طریقہ طلاقِ احسن ہے _ اس میں متعدد حکمتیں ہیں اور شریعت کی طرف سے متعدد سہولتیں پائی جاتی ہیں _ طلاق احسن یہ ہے کہ عورت کی پاکی کی حالت میں صرف ایک طلاق دی جائے _ عدّت (تین ماہ/ماہ واری) کے دوران میں میاں بیوی ساتھ رہیں گے _ اگر ان میں مفاہمت ہوجائے تو شوہر کی طرف سے رجوع کا زیانی اظہار کرنا یا تعلّقِ زن و شو قائم کرلینا کافی ہوگا _ اگر عدّت گزر جائے تو دونوں کے درمیان علیٰحدگی ہوجائے گی اور ہر ایک کو از سرِ نو اپنی ازدواجی زندگی شروع کرنے کا اختیار ہوگا _ لیکن اگر دونوں کا نیا رشتہ نہ ہوپایا ہو اور وہ اپنی مرضی سے یا رشتے داروں کے کہنے پر دوبارہ ساتھ رہنے پر آمادہ ہوجائیں تو شریعت اس کی اجازت دیتی ہے _ تعلّق منقطع رہنے کی یہ مدّت چند دن ، چند ماہ یا چند سال بھی ہوسکتی ہے _

بنی اسرائیل کو صحرا نوردی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل اور انعام کے طور پر بغیر محنت کے ‘منّ و سلویٰ’ نام کی لذیذ غذائیں ملتی رہیں ، لیکن وہ اکتا گئے اور پیغمبر سے کاشت کرنے کی سہولیات کا تقاضا کرنے لگے _ اس وقت پیغمبر نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا تھا :
اَتَسۡتَبۡدِلُوۡنَ الَّذِىۡ هُوَ اَدۡنٰى بِالَّذِىۡ هُوَ خَيۡرٌ‌
(البقرۃ :61)
”کیا ایک بہتر چیز کے بجائےتم ادنیٰ درجے کی چیزیں لینا چاہتے ہو؟”
‘طلاقِ احسن’ کے بہتر آپشن چھوڑ کر ‘طلاقِ حسن ‘ کے کم تر آپشن کو اختیار کرنا بھی اسی ذہنیت کی غمّازی کرتا ہے _
__________
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے تیار کردہ ‘مجموعہ قوانینِ اسلامی’ میں طلاق احسن اور طلاق حسن کی درج ذیل تشریح کی گئی ہے :
” طلاق سنت کے لیے دو شرطیں ہیں :
* پہلی شرط یہ ہے کہ طلاق مدخولہ بیوی کو حالتِ حیض میں نہ دی جائے ، بلکہ ایسے طہر کی حالت میں دی جائے جس میں شوہر نے بیوی کے ساتھ جماع نہ کیا ہو _
* اور دوسری شرط یہ ہے کہ مدخولہ کو ایک طہر میں ایک ہی طلاق رجعی دی جائے _
* اگر ایک طہر میں ایک طلاق رجعی دے کر چھوڑ دیا ، یہاں تک کہ اس کی عدّت گزر گئی تو یہ طلاق احسن ہے _
* اور اگر ہر ایسے طہر میں جس میں وطی نہ ہوئی ہو ، ایک طلاق رجعی دی ، یہاں تک کہ تین طلاقیں پوری ہوگئیں تو یہ طلاق حسن ہے _
* اسی طرح غیر مدخولہ کو ایک طلاق دینا ، چاہے وہ حالتِ حیض میں ہو ، طلاق حسن ہے _”
* اور نابالغہ یا آئسہ (جس کو بوڑھاپے کی وجہ سے حیض آنا بند ہو گیا ہو) کو تین مہینوں میں تین طلاقیں دینا بھی طلاقِ حسن ہے _ ”
[ قانون طلاق، باب سوم : طلاق سنّت و طلاق بدعت ، دفعہ نمبر 11 ]

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

Please Visit Website: www.deccanfiles.com
Please Like Facebook Page: www.facebook.com/deccanfiles
Please Subscribe Our Channel: https://www.youtube.com/channel/UCLjY…
Join Our Whatsapp Group: https://chat.whatsapp.com/FpjNXEYZ8YJ…

اپنا تبصرہ بھیجیں