گجرات ہائی کورٹ نے مسلم نوجوان، اس کے والدین اور قاضی صاحبان کے خلاف ریاست میں پہلی بار ’اینٹی لو جہاد‘ قانون کے تحت درج کی گئی ایف آئی آر کو منسوخ کردیا جبکہ میاں اور بیوی کے درمیان معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہوگیا۔
لائیو لا کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ عدالت نے کہا کہ اب جبکہ معاملہ پرامن انداز میں حل ہوگیا ہے ایسے میں فوجداری کارروائی کو مزید جاری رکھنا فریقین کو غیرضروری ہراساں کرنے کے مماثل ہوگا۔
معزم جج نیرل آر مہتا نے ایف آئی آر کو پوری طرح مسترد کردیا اور آئندہ کی کاروائی پر روک لگادی۔ ایف آئی آر میں خاتون نے الزام لگایا تھا کہ اس کے شوہر سمیر اور اس کے والدین و قاضی صاحبان نے زبردستی اس کا مذہب تبدیل کراتے ہوئے نکاح کروایا تھا۔
مسلم نوجوان و دیگر کے خلاف سخت کاروائی کرتے ہوئے مختلف دفعات کے تحت کاروائی کی گئی تھی تاہم یہ ریاست کا پہلا کیس تھا جسے نام نہاد اینٹی لو جہاد قانون کے تحت درج کیا گیا تھا۔
انتہائی حساس معاملہ میں پول اس وقت کھلی جب خاتون نے ہائیکورٹ سے رجوع ہوتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ایف آئی آر میں انتہائی غلط حقائق کو پیش کیا گیا جبکہ میں نے کبھی بھی زبردستی تبدیلی مذہب کا الزام عائد نہیں کیا تھا۔
خاتون نے الزام لگایا کہ اس نے معمولی ازدواجی تنازعہ کی اطلاع دینے کے مقصد کے تحت پولیس سے رجوع ہوئی تھی تاہم پولیس عہدیداروں نے اپنے طور پر “لو جہاد” کا زاویہ پیش کیا۔ خاتون نے مزید الزام عائد کیا کہ ایف آئی آر میں ایسے الزامات کو شامل کیا گیا جو اس نے کبھی نہیں لگائے۔
واضح رہے کہ کچھ انتہاپسند و فرقہ پرست گروہ ’لوجہاد‘ کی اصطلاع پیش کرتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسا صرف مسلمانوں کو بدنام کرنے کی نیت سے کیا جاتا ہے۔