خلع کے معاملات میں تیزی سے اضافہ، تین طلاق پر قانون کے بعد خواتین کے رجحان میں تبدیلی، شریعت پر نکتہ چینی کرنے والوں کے منہ پر زودار طمانچہ

تین طلاق پر پابندی کے بعد ایسا مانا جارہا ہے کہ خلع کے واقعات میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔

اطلاعات کے مطابق مسلم خواتین کا رجحان خلع کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ وہیں طلاق کی متعدد صورتیں موجود ہیں تاہم تین طلاق قانون کے بعد یہ معاملہ انتہائی پیچیدہ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے جو خواتین خلع لینا چاہتی ہے تو ان کے شوہر انہیں خلع بھی دینے سے انکار کررہے ہیں۔

میاں بیوی دونوں علیحدگی اختیار کرسکتے ہیں لیکن عدالت عدالتی کاروائی سے ڈر کر اب بیشتر مرد ان خواتین کو بھی طلاق نہیں دے رہے ہیں جو رشتہ کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ ایسے میں اب خواتین خود ہی دارالقضا کا رخ اختیار کرکے خلع کے ذریعہ علیحدگی اختیار کر رہی ہیں۔

لکھنؤ کے عیش باغ میں واقع اسلامک سنٹر آف انڈیا کے دارالقضا کے قاضی مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ بعض لوگ یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ اسلام میں عورتوں کو رشتہ ازدواج ختم کرنے کا کوئی حق نہیں ہے جو بالکل غلط ہے۔ موجودہ دور میں جس طریقے سے خواتین آپسی سمجھوتہ سے خلع کے ذریعہ علیحدگی اختیار کررہی ہیں اس سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اسلام میں خواتین اور مرد کو برابر کے حقوق دیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تین طلاق کو جرم قرار دیا گیا ہے اس وقت سے خلع کے معاملات میں زبردست اضافہ درج کیا گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ بیشتر مرد جن کے اپنی بیوی کے ساتھ رشتے خوشگوار نہیں ہیں، وہ اب عدالت کا چکر کاٹنے کے خوف سے طلاق نہیں دے رہے ہیں جس کی وجہ سے خواتین کا استحصال ہورہا ہے۔ اسی لیے اب خواتین خلع کا سہارا لے کر رشتہ ازدواج کو ختم کرنے میں ہی بہتری سمجھ رہی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں