سنٹرل انفارمیشن کمیشن (سی آئی سی) نے اپنے ایک تازہ حکم میں کہا کہ مساجد کے اماموں کو اعزازیہ ادا کرنے سے متعلق 1993 میں سپریم کورٹ کی جانب سے دیا گیا فیصلہ ’آئین کی خلاف ورزی‘ ہے۔ سی آئی سی نے مزید کہا کہ اس فیصلہ سے نہ صرف ایک ’غلط مثال‘ قائم کرتا ہے بلکہ اس پر سیاست بھی کی جارہی ہے۔
دہلی حکومت اور دہلی وقف بورڈ کی جانب سے ائمہ کو دیئے جارہے اعزازیہ کی تفصیلات کے خواہاں ایک شخص نے آر ٹی آئی درخواست داخل کی تھی جس کے جواب میں انفارمیشن کمشنر ادے مہورکر نے کہا کہ ’اس بات کا مشاہدہ کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے حکم سے اس آئینی شق کی خلاف ورزی ہوئی ہے جس میں بتایا گیا کہ ٹیکس دہندگان کا پیسہ ایک خاص مذہب کےلیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
1993 میں سپریم کورٹ کی بنچ نے آل انڈیا امام آرگنائزیشن کی ایک درخواست پر وقف بورڈ کو حکم دیا کہ وہ مساجد کے اماموں کو مناسب اعزازیہ ادا کرے۔ کیس کی سماعت کے بعد معزز جسٹس آر ایم سہائے نے دہلی حکومت کی وزارت اوقاف کو اماموں کو اعزازیہ ادا کرنے کی ہدایت دی تھی۔
سی آئی سی کے تازہ حکم میں کہا گیا کہ یہ ’ 1947 سے پہلے مسلم کمیونٹی کو خصوصی فوائد دینے کی پالیسی تھی جس نے مسلمانوں کے ایک حصے میں پین اسلامی اور فرقہ وارانہ رجحانات کی حوصلہ افزائی میں کلیدی کردار ادا کیا اور اسی وجہ سے بالآخر ملک تقسیم ہوا‘۔
سی آئی اے نے مزید کہا گیا کہ ’صرف مساجد کے اماموں کو اعزازیہ دینا، نہ صرف ہندو برادری اور دیگر غیرمسلم اقلیتی مذاہب کے ارکان کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے اور یہ ہندوستانی مسلمانوں کے ایک طبقے میں پین اسلامک رجحانات کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے جو پہلے ہی نظر آ رہے ہیں۔ مسلم کمیونٹی کو خصوصی مذہبی فوائد دینے جیسے اقدامات جو کہ موجودہ معاملے میں اٹھائے گئے ہیں، درحقیقت بین المذاہب ہم آہنگی کو بری طرح متاثر کرتے ہیں‘۔
سی آئی سی نے ہدایت دی کہ اس کے تازہ حکم کی ایک کاپی مرکزی وزیر قانون کو بھی بھیجی جائے تاکہ آئین کے آرٹیکل 25 سے 28 کی شقوں کے نفاذ کو یقینی بنایا جا سکے اور تمام مذاہب سے متعلق رکھنے والے پادریوں، سوامی و دیگر کو اعزازیہ دیا جائے۔
1993 SC order for remuneration to imams in violation of Constitution: CIC
مساجد کے اماموں کو اعزازیہ دینا غیرآئینی، 1993 میں سپریم کورٹ نے غلط فیصلہ سنایا تھا، انفارمیشن کمیشن کے تازہ حکم نامہ میں دعویٰ