وقت ایک بہت بڑا موضوع ہے، سائنس میں اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ہمارے دنوں کا انحصار گھڑیوں کی سوئیوں پر ہوتا ہے، یعنی ابھی کیا وقت ہوا ہے، کس وقت کیا کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔ سال کے کچھ مہینے 31 اور کچھ 30 دنوں کے کیوں ہوتے ہیں؟
مگر سوال یہ ہے کہ آخر نئے دن کا آغاز رات 12 بجے (گریگورین یا جولین کیلنڈر کے مطابق) کیوں ہوتا ہے؟ اس کا جواب سادہ نہیں بلکہ کافی الجھا ہوا ہے مگر یہ واضح ہے کہ ایسا قدیم روم کی مہربانی سے ہوا۔ اس کی وضاحت کے لیے پہلے آپ کو اے ایم اور پی ایم کو سمجھنا ہوگا۔
اے ایم لاطینی جملے ante meridiem کا مخفف ہے جس کا مطلب دوپہر سے پہلے یا بی فور نون ہے۔ جہاں تک پی ایم کی بات ہے تو یہ لاطینی جملے post meridiem کا مخفف ہے جس کا مطلب دوپہر کے بعد یا آفٹر نون ہے۔
قدیم مصر میں دن کو 24 حصوں یا گھنٹوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور وقت کا تعین کرنے کے لیے آسمان پر سورج کی پوزیشن کو مدنظر رکھا جاتا تھا۔ اس سسٹم کو اب سن ڈائل کا نام دیا گیا ہے اور چونکہ رات کو سن ڈائل سسٹم کام نہیں کرسکتا تھا تو یہ ضروری تھا کہ دوپہر اور آدھی رات کا تعین ہو تو اس کے لیے اے ایم پی ایم جیسی اصطلاحات استعمال ہوئیں (اس وقت البتہ اسے کچھ اور کہا جاتا تھا)۔
سن ڈائل کی ایجاد صفر یا 0 سے ایک ہزار سال قبل ہوئی تھی تو دن کے درمیانی حصے کے لیے نمبر 12 کا استعمال ہوا۔ قدیم روم میں اے ایم اور پی ایم کے نظام کو اپنا لیا گیا تھا اور اس کے مطابق 12، 12 گھنٹوں کے 2 گروپس بنائے، یعنی 12 گھنٹے دن کے جبکہ 12 گھنٹے رات کے۔ 159 قبل مسیح میں روم میں واٹر کلاک کی آمد ہوئی جو رات کے 12 گھنٹوں کے بارے میں بھی بتا سکتی تھی۔
اسی کے باعث رومیوں نے کاروباری و سماجی مصروفیات کے لیے نصف شب سے نئے دن کا آغاز کرنا شروع کیا کیونکہ رات کے اس وقت مصروفیات نہ ہونے کے برابر ہوتی تھیں۔ رومیوں کا خیال تھا کہ دوپہر میں تاریخ کا بدلنا بہت زیادہ الجھا دینے والا ہوگا، جیسے منگل کو دوپہر کا کھانا کھایا اور بدھ کو کام پر واپس پہنچے، جس سے مختلف مسائل پیدا ہوسکتے تھے۔
اس طرح بتدریج یہ روایت بن گیا اور اب بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔