شوہر کا دو بیویوں کے ساتھ تین تین دن گزارنے اور ایک دن چھٹی کرنے کا معاہدہ

ایک شوہر کی دو بیویوں کی آپس میں بننا عموماً مشکل ہوتا ہے تاہم بھارت میں 2 سوتنوں نے پرسکون زندگی گزارنے کے لیے باہمی معاہدہ کرلیا ہے۔

مدھیہ پردیش کے ایک شخص نے اپنی دو بیویوں کے ساتھ بقایا زندگی سکون سے گزارنے کے لیے ان کے ساتھ منفرد معاہدہ کرلیا، جس کے تحت وہ ہفتے میں تین تین دن ہر ایک بیوی کے ساتھ گزاریں گے۔ شہر گوالیار سے تعلق رکھنے والے انجنیئر نے اپہلی پہلی اور دوسری بیوی کے ساتھ عدالت سے باہر معاہدہ کیا، جسے عدالتوں نے بھی قبول کیا۔

نوجوان ریاست ہریانہ کے شہر گروگرام میں ملازمت کرتا تھا، جنہوں نے 2018 میں 28 سالہ سیما سے پہلے شادی کی اور انہیں ان سے ایک بیٹا بھی تھا، تاہم 2020 میں کورونا کی وبا آنے کے بعد وہ بیوی اور بیٹے کو اپنے گھر گوالیار چھوڑ کر آیا اور بعد ازاں انہوں نے ملازمت کی جگہ دوسری شادی کرلی۔

مذکورہ شخص کی دوسری شادی کا بھانڈا اس وقت پھوٹا جب کورونا وبا کے کمزور پڑنے کے بعد بھی وہ اپنی پہلی بیوی کو واپس لینے سسرال گوالیار نہیں آیا جس پر اس کی بیوی کو شک ہوا اور وہ گروگرام شوہر کے دفتر پہنچ گئی جہاں اس پر یہ بھید آشکار ہوا کہ اس کے شوہر نے اپنی آفس کولیگ سے دوسری شادی کرلی ہے اور اس سے اس کی ایک بیٹی بھی ہے۔

دوسری شادی کا علم ہونا تھا کہ پہلی بیوی نے دفتر میں ہی ہنگامہ کھڑا کردیا اور شوہر سے شدید جھگڑا کیا بعد ازاں اس نے انصاف کے لیے گوالیار کی فیملی عدالت سے رجوع کر لیا۔

عدالت کے طلب کرنے پر جب شوہر وہاں گیا تو عدالت نے ان میں راضی نامہ کرانے کی کوشش کی تاہم مذکورہ شخص نے دوسری بیوی کو چھوڑنے سے انکار کر دیا جس کے بعد اس کی دونوں بیویوں کو راضی کرنے کی کوشش کی تاہم عدالت کو اس میں بھی ناکامی ہوئی۔

بعد ازاں زندگی میں سکون لانے کے لیے دونوں سوکنوں نے ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور شوہر کے ساتھ ہفتے میں تین تین دن گزارنے کا معاہدہ کیا جب کہ ساتواں دن اتوار شوہر کی صوابدید پر چھوڑ دیا کہ وہ جس بیوی کے ساتھ یہ دن گزارنا چاہے اس کو آزادی ہوگی۔ اس معاہدے میں یہ بھی طے کیا گیا کہ شوہر اپنی دونوں بیویوں کو گروگرام میں الگ الگ فلیٹ لے کر دے گا اور تنخواہ کا حصہ برابر دونوں میں تقسیم کرے گا

اس حوالے سے وکیل ہریش دیوان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ تینوں فریقین نے اپنی مرضی سے کیا ہے اس میں وکیل یا عدالت کا کوئی کردار نہیں ہے۔ معاہدہ کرنے والے تینوں ہندو ہیں اور مذکورہ معاہدہ ہندو مذہب کے تحت غیر قانونی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں