اعلیٰ تعلیم میں مسلمان، درج فہرست ذاتوں و درج فہرست قبائل سے بھی پیچھے: کل ہند سروے میں حیرت انگیز انکشافات (تفصیلی رپورٹ)

حیدرآباد (دکن فائلز) ملک میں مسلمانوں کی تعلیمی حالت پر ایک سروے کیا گیا جس میں چونکادینے والے حقائق سامنے آئے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم سے متعلق کئے گئے سروے میں پایا گیا کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کےلئے مسلمانوں کی جانب سے اندراج میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے جبکہ ایس ٹی اور او بی سی طبقہ کی جانب سے اندراج میں بہتری آئی ہے۔
ایک انگریزی روزنامہ میں شائع رپورٹ کے مطابق مسلمان اعلی تعلیم کےلئے اندراج میں درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل یعنی ایس سی ایس ٹی سمیت تمام برادریوں سے پیچھے ہیں۔ تازہ ترین سروے برائے اعلیٰ تعلیم کو وزارت تعلیم کے تحت کرایا گیا۔
ملک بھر میں کرائے گئے سروے برائے اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی تعلیم سے متعلق مایوس کن حقیقت سامنے آئی ہے جبکہ اعلیٰ تعلیم میں درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کے اندراج میں بالترتیب 4.2 فیصد 11.9 فیصد اور 4 فیصد 20-2019 کے مقابلے میں بہتری آئی ہے۔
اس سلسلہ میں مسلم کمیونٹی کے اندراج میں 8 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ اس طرح کی غیرمعمولی کمی، جزوی طور پر کووڈ وبا کی وجہ سے مسلم سماج کی معاشی بدحالی کی طرف اشارہ بھی کرتی ہے۔ سروے کے نتائج سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہونہار طلباء غربت کی وجہ سے گریجویشن میں داخلہ لینے کے بجائے اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد کمائی کے مواقع حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔
سب سے زیادہ گراوٹ اتر پردیش (36 فیصد) اس کے بعد جموں و کشمیر (26 فیصد) مہاراشٹر (8.5 فیصد) اور تمل ناڈو (8.1 فیصد) سے رپورٹ ہوئی۔ دہلی میں، ہر پانچواں مسلمان طالب علم سینئر اسکول سرٹیفکیٹ کا امتحان مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ لینے میں ناکام رہا۔ انہوں نے دہلی کے تعلق سے تحریر کیا ہے کہ دہلی کے اعداد و شمار عام آدمی پارٹی حکومت کے تعلیم میں بہتری کے دعووں کی پول کھولنے کےلئے کافی ےہ۔ اسی طرح، اتر پردیش میں، جہاں مسلمان آبادی کا تقریباً 20 فیصد ہے، اعلیٰ تعلیم کے لیے مسلم سماج کا اندراج محض 4.5 فیصد ہے۔
کیرالہ واحد ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی تعلیمی سرگرمیاں بہتر نظر آتی ہیں اور یہاں 43 فیصد مسلمان اعلیٰ تعلیم کے لیے جاتے ہیں۔ سروے میں تعلیمی اعتبار سے مسلم کمیونٹی پسماندہ ثابت ہوئی ہے، صرف 4.6 فیصد مسلم طلبا ہی اعلیٰ تعلیم کے اندراج کراتے ہیں جبکہ ملک کی آبادی میں مسلم سماج کا حصہ 14 فیصد سے زیادہ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں میں خواتین طلباء کی تعداد مردوں کے مقابلے زیادہ ہے، جو اقلیتی برادریوں کی خواتین کی بتدریج ترقی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس سروے کے نتائج اقلیتی امور کی وزارت کی جانب سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلباء کے لیے مولانا آزاد فیلوشپ کو ختم کرنے کے پانچ ماہ بعد سامنے آیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں