بڑی خبر: متھرا شاہی عیدگاہ مسجد معاملہ کی سماعت مکمل، الہ آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا

حیدرآباد (دکن فائلز) الہ آباد ہائی کورٹ نے گذشہ روز جمعہ کو متھرا میں شاہی عیدگاہ سے متعلق مقدمہ کو برقرار رکھنے پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کرشنا مندر سے متصل شاہی عیدگاہ مسجد کو ’ہٹانے‘ کے لیے عدالت میں کئی عرضیاں داخل کی گئیں۔ اس سلسلہ میں 18 سول سوٹ داخل کئے گئے۔

ہندو فریق کرشن جنم بھومی ہونے کا دعویٰ کررہا ہے اور عرضی میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اورنگ زیب دور میں شاہی عیدگاہ مسجد کو مندر توڑ کر بنائی گئی تھی۔ ہندو فریق کا کہنا ہے کہ مسجد کمیٹی کا ملکیت پر کوئی قانونی حق نہیں ہے جبکہ 1669 سے شاہی عیدگاہ مسجد میں پنج وقتہ نماز ادا کی جارہی ہے۔

اس معاملہ میں مسلم فریق نے دلیل دی ہے کہ عبادت گاہوں سے متعلق 1991 خصوصی ایکٹ اور وقف ایکٹ کے تحت مقدمہ اس طرح کا مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا۔ یہ ایکٹ کسی بھی عبادت گاہ کی تبدیلی پر پابندی لگاتا ہے اور اس کا مقصد ایسے مقامات کے مذہبی کردار کو برقرار رکھنا ہے جیسا کہ یہ 15 اگست 1947 کو موجود تھے۔

اس کیس کی سماعت جسٹس میانک کمار جین کررہے ہیں۔ قبل ازیں جمعرات کو مسلم فریق کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے تسلیمہ عزیز احمدی نے معزز حج کو بتایا کہ وقف ایکٹ کی دفعات کے تحت اس معاملہ کی سماعت کا اختیار وقف ٹریبونل کے دائرہ اختیار میں ہے۔

انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 12 اکتوبر 1968 کو فریقین کے درمیان ایک سمجھوتہ کیا گیا تھا جس کی تصدیق 1974 میں ہونے والے دیوانی مقدمے میں ہوئی تھی۔ احمدی نے کہا کہ کسی سمجھوتے کو چیلنج کرنے کی حد تین سال ہے لیکن موجودہ مقدمہ 2020 میں دائر کیا گیا تھا اور اس طرح حد بندی کے قانون کے ذریعے یہ ناقابل قبول ہے۔

ہندو فریق کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے دلائل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ عبادت گاہوں کا ایکٹ 1991 کا اطلاق صرف غیر متنازعہ ڈھانچوں کے معاملات میں ہوتا ہے۔ انہوں نے متھرا میں شاہی عیدگاہ سے متعلق معاملہ کو متنازعہ بتایا۔ وکیل نے دلیل دی کہ موجودہ کیس میں ڈھانچے کے کردار کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق قبل ازیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ متنازعہ جائیداد کی ملکیت سے متعلق دستاویز نہ تو سنی سنٹرل وقف بورڈ نے فراہم کیا ہے اور نہ ہی عیدگاہ کی انتفاضہ کمیٹی نے جو مقدمہ میں مدعا علیہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں