(ایجنسیز) اسماعیل ہنیہ سن 1962 میں غزہ کے ساحل پر واقع ایک پناہ گزيں کیمپ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کی وجہ سے غربت و تباہی کا بچپن سے ہی تجربہ کیا تھا۔ جب اسرائیل نے سن 1967 میں غزہ اور غرب اردن پر قبضہ کر لیا تو اسماعیل ہنیہ نے اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے تحت زندگی کی تلخیوں کو بھی بخوبی محسوس کیا۔
اسماعیل ہنیہ نے اقوام متحدہ کے ایک اسکول میں تعلیم حاصل کی، غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں اعلی تعلیم حاصل کی اور طلبہ یونین کے صدر بھی بنے، وہ اسرائيل کے خلاف سیاسی جد وجہد میں بھی سرگرم تھے۔ ہنیہ ان نوجوانوں میں شامل تھے ، جنہوں نے پہلی انتفاضہ تحریک ميں اہم کردار ادا کیا اور سن 1978 میں انہوں نے جیل کی زندگی کا بھی تجربہ کیا۔ قید اور انتفاضہ کے دوران وہ حماس کے لیڈروں سے آشنا ہوئے اور تین سال قید کی صعوبتيں برداشت کرنے کے بعد حماس کے رہنماؤں کے ساتھ انہيں لبنان جلا وطن کر دیا گیا، لیکن وہاں بھی انہوں نے اپنی جد و جہد جاری رکھی۔
سن 1993 میں وہ غزہ واپس گئے اور اسلامی یونیورسٹی کے سربراہ بن گئے۔ اسی دوران وہ حماس کے بانی شیخ احمد یاسین سے قریب ہوئے اور شیخ احمد یاسین کی صیہونی جیل سے رہائی کے بعد وہ حماس کے سربراہ کے دفتر کے چیف بن گئے۔ اسرائیل نے دونوں پر قاتلانہ حملہ کیا دونوں زخمی ہوئے ، لیکن جان بچ گئی۔ دوسری انتفاضہ تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی اسرائيل نے حماس کے پہلی نسل کے اکثر رہنماؤں کو قتل کر دیا جس کی وجہ سے اسماعیل ہنیہ جیسے دوسری نسل کے رہنماؤں کو آگے آنا پڑا۔
اس دوران اسرائیل کے غزہ سے انخلاء کے بعد اسماعیل ہنیہ نے بڑی تيزی سے حماس کو منظم کیا اور محمد ضیف اور القسام بریگیڈ کی مدد سے فلسطینیوں کی طاقت کو کئی گنا بڑھا دیا ۔ فلسطین میں انتخابات کے دوران بھی اسماعیل ہنیہ کی قیادت میں حماس کی فہرست کو سب سے زیادہ ووٹ ملے اور وہ فلسطین کے وزیر اعظم بن گئے، لیکن اسرائیل نے امریکہ کی مدد سے اور غزہ کا محاصرہ کر کے، ایک اچھی حکومت کی تشکیل کی کوئی گنجائش نہيں چھوڑی۔
اسماعیل ہنیہ کی قیادت کے دوران اسرائیل نے کئی بار ان پر قاتلانہ حملہ کیا لیکن اسے کامیابی نہيں ملی اور حماس دن بہ دن مضبوط ہوتی چلی گئی اور سن 2014 کی جنگ میں یہ ثابت ہو گیا کہ اب اسرائیل ، حماس کی طاقت کا مقابلہ نہيں کر سکتا۔ اسماعیل ہنیہ کی مقبولیت بڑھتی گئی اور سن 2017 میں وہ حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ بن گئے۔
اسرائيل نے اسماعیل ہنیہ کو کئی بار غزہ جانے سے روکا اور ایک بار رفح پاس میں انہيں قتل کرنے کی بھی کوشش کی جس کی وجہ سے حماس کے سینئر لیڈروں نے یہ فیصلہ کیا کہ اسماعیل ہنیہ غزہ سے باہر جائيں اور باہر رہ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ لیکن اسرائیل نے بزدلی دکھاتے ہوئے اس کا بدلہ اسماعیل ہنیہ کے اہل خانہ کو قتل کر کے لے لیا، لیکن اس سے اسماعیل ہنیہ اور حماس کی مقبولیت بڑھتی گئی اور آج بھی فلسطین اور قدس کی آزادی کے لئے اس عظیم فلسطینی رہنما کے کردار کی اہمیت سے کوئی انکار نہيں کر سکتا ۔