عمر خالد چار سال سے جیل میں بند ہیں! سوشل میڈیا پر صدائے احتجاج بلند

حیدرآباد (دکن فائلز) 13 ستمبر 2020 کو دیگر 11 افراد کے ساتھ عمر خالد کو یو اے پی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ تب سے عمر خالد جیل میں قید ہیں۔ عمر خالد کے چار سال سے جیل میں قید رہنے کے معاملہ پر اب انصاف پسند افراد نے احتجاج میں شدت لانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ للت بچانی نے ایک دستاویمی فلم ’پریزنس نمبر 626710‘ کو جواہر بھون آڈیٹوریم میں دکھایا گیا۔

2020 دہلی فسادات معاملہ میں 4 سال قبل سماجی کارکن عمر خالد کو گرفتار کیا گیا تھا، اب سوشل میڈیا پر ان کی رہائی کےلئے صدائے احتجاج بلند کیا جارہا ہے۔ گذشتہ چار سالوں میں مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران متعدد مرتبہ سپریم کورٹ نے یہ کہا ہے کہ ’ضمانت اصول ہے اور جیل ایک استثناء ہے‘، لیکن یہ سب کچھ دیگر لوگوں کو لاگو ہوتا ہے، عمر خالد کی ضمانت کے معاملہ میں صرف تاریخ پہ تاریخ ملتی جارہی ہے۔

اداکارہ سوارا بھاسکر نے سوشل میڈیا پر ٹوئٹ کیا کہ ’عمر خالد کو بغیر ضمانت، مقدمہ یا جرم کے لئے قید کئے جانے کے 4 سال مکمل ہوگئے، جس ملک کو جمہوریت سمجھا جاتا ہے اس میں یہ ایک دھوکہ ہے، یہ ہمارے نظام انصاف کی شرمناک حقیقت ہے’۔

اس کے علاوہ جے این یو کے سابق ریسرچ اسکالر کی تصاویر کے ساتھ کئی سوشل میڈیا صارفین نے پوسٹ کرکے اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا ہے کہ ’یہ چار سال ہمارے عدالتی نظام اور ہندوستان کے آئین پر داغ ہیں’۔

عمر خالد ہی نہیں ایسے افراد متعدد سالوں سے جیلوں میں قید ہیں جنہوں نے حکومت کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کردیا اور سماجی انصاف و حقوق کی بات کہی۔ بدقسمی یہ ہے کہ موجودہ بی جے پی حکومت میں، حکومت کے خلاف انصاف کا مطالبہ کرنے والوں کو ہی دیش دشمن اور ملک سے غداری بتاکر انتہائی سخت قوانین کے تحت مقدمات درج کردیئے جاتے ہیں اور انہیں جیلوں میں قید کردیا جاتا ہے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کئی سالوں کے بعد عدالتیں ایسے ملزمین کو باعزت بری کرتے وقت کچھ سخت ریمارکس تو کردیتی ہیں لیکن اس سے ان ملزمین کے بے گناہ ہونے کے باوجود متعدد سالوں کی قید کی تکالیف و دیگر پریشانیوں کے بدلے انہیں کچھ نہیں دیا جاتا ہے اور نہ ہی قصوروار پولیس عہدیداروں کے خلاف کوئی کاروائی کی جاتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں