قرآن خبردار کرتا ہے کہ رسول مکرمؐ سے اونچی آواز میں بات نہ کرو: ڈاکٹر شجاعت علی صوفی

جب شراب ‘ چرس ‘ گٹکھا ہمارے عزیز ہوجاتے ہیں تو ہم اپنے علمائے دین اور قائدین کی باتوں کو ان کی ہدایتوں کو ہیچ سمجھنے لگتے ہے جس کے سبب ہم دوسروں کی نظروں میں گرنے لگتے ہیں۔ انسان پر تین بڑے ہی اہم مرحلے گزرتے ہیں ، تقلید ، انتخاب اور اختراع ‘ تقلید دوسروں کی نقل کرنا اور ان کی شخصیت کا رنگ اختیار کرنا ہے۔ ان کے صفات وہ عادات قبول کرلینا ہے۔ اس تقلید کا سبب شدید وابستگی ، عقیدت اور تعلق خاطر ہوتا ہے جو آدمی کو حرکات وسکنات ، آواز اور لہجہ تک کی نقل اتارنے پر مجبور کردیتا ہے، یہ جذبہ اپنے کو دفنا دینا اور اپنی ذات کی معنوی خودکشی ہے۔

ایسے لوگ اپنے کو تکلیف میں ڈالتے ہیں ، اپنی رائے کے خلاف جاتے ہیں بلکہ پیچھے کی طرف چلنے لگتے ہیں۔ کوئی اپنی فطری آواز دوسرے کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے۔ کوئی اپنی چال دوسرے کی چال پر قربان کردیتا ہے۔ کاش کے یہ تقلید اچھی صفات میں ہوتی جس سے اسے بڑائی اور رفعت ملتی یعنی علم ، کرم اور بردو باری۔ لیکن آپ کو حیرت ہوگی کہ نقالچی حروف کے مخارج طریقہ کار اور ہاتھوں کے اشارے میں نقل کرتے ہیں۔

میں مسلم نوجوانوں سے بڑے ادب و احترام سے یہ کہوں گا کہ آپ دوسروں سے بالکل الگ ہیں ، آپ کو اپنی صفات اور صلاحیتوں کے ساتھ چلنا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو کامیابی اور کامرانی آپ کے قدم چومے گی لیکن جب میں یہ کہتا ہوں کہ آپ شراب اور دوسری نشیلی چیزوں کے عادی ہوجاتے ہیں تو آپ کی پہچان مٹ جاتی ہے اور اسی طرح کی نہج ہمیں جشن میلاد کے موقع پر نکالے گئے جلوسوں میں دکھائی دے رہی تھی۔ آقائے دو جہاں سے محبت کرنا ایمان کی علامت ہے لیکن ناچنا، گانا اور ڈی جے کی گندی جھنکار پر پھدکنا محبت نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جسے ہمارے سیکولر ہندو بھائی بھی قبول نہیں کرتے وہ کہتے ہیں کہ
نام لیوا ہے ہم بھی احمد کے صرف مسلم کامحمدؐ پہ اجارہ تو نہیں

حیدرآباد جیسے عظیم الشان تاریخی شہر میں پچھلے دنوں نکالے گئے جلسوں نے ہماری نیک نامی کو پامال کردیا ہے۔ تاریخی اوراق کو پلٹایا جائے تو ایک تصویر واضح طورپر ہم کو دکھائی دے گی کہ اسلام ہمارے بہترین اعمال کی وجہ سے پھیلا ہے۔

آقائے دو جہاں کی ایک ایک سنت پر نگاہ ڈالی جائے تو ہمیں پتہ چلے گا کہ ہم نے عادتوں کی شہادت اور قربانیوں کے عظیم فلسفوں کے سبب ہی سماج میں عزت حاصل کی اور دوسرے لوگ ہمارے اعمال کو بروئے کار لاکر آگے بڑھ گئے۔ جلوس کے دوران کچھ ناپسندیدہ واقعات کا منظر عام پر آنا بھی ہماری ملت کے لئے ایک بدنما داغ ہی کہا جائے گا۔

جلوس میں عظمت کا فقدان رہا اور باجے گاجے کی وجہ سے ہم نے صوتی اور ماحولیاتی آلودگی پیدا کی۔ دوسرے لوگ کیا کرتے ہیں ہمارے لئے وہ اہم نہیں ہے بلکہ اہم بات تو یہ ہے کہ ہم اپنے عمل سے سماج کو کس حد تک سکون عطا کررہے ہیں۔

بمبئی ہائی کورٹ کو پچھلے دنوں یہ تبصرہ کرنا پڑا کہ اگر گنیش اتسو کے دوران قابل قبول سطح سے زیادہ لاؤڈ اسپیکر اور ساؤنڈ سسٹم کا استعمال نقصان دہ ہے تو میلاد النبیؐ کے جلوسوں کے دوران بھی اس کا وہی اثر پڑے گا۔ چیف جسٹس ڈی کے اپادھیائے اور جسٹس امیت بورکر کی ڈیویژن بنچ نے میلاد النبیؐ جلوسوں کے دوران ڈی جے ، لیزر لائیٹس وغیرہ کے استعمال پر پابندی کے مطالبہ کے لئے مفاد عامہ کے متعدد عرضیوں یعنی پی آئی ایل کی سماعت کرتے ہوئے یہ ریمارکس کئے۔

عرضیوں میں بجا طورپر دعویٰ کیا گیا کہ نہ تو قرآن اور نہ ہی احادیث میں اس طرح کی بیہودگیوں کا ذکر ہے۔ بنچ نے گنیش اتسو سے ٹھیک پہلے منظور کئے گئے اپنے حکم کا حوالہ دیا جس میں تہواروں کے دوران شور کی آلودگی کے قواعد 2000 ء کے تحت مذکورہ حد سے زیادہ شور مچانے والے ساؤنڈ سسٹم اور لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر پابندی لگانے پر زور دیا گیاتھا۔ درخواست گزاروں کے وکیل اویس نے عدالت سے اپیل کی تھی کہ میلاد جلوس کو عدالت کے پہلے حکم میں شامل کیا جائے جس پر بنچ نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ حکم نامہ میں عوامی تہوار کا ذکر کیا گیا ہے۔

عدالت نے درخواستوں کو نمٹاتے ہوئے کہا کہ اگر یہ گنیش چتورتی کے موقع پر نقصاندہ ہے تو یہ عید جیسے موقعو ںپر بھی تکلیف دہ قرار پائے گا۔ بہرحال ہائی کورٹ نے بھی جلوس میں شامل ان اشیاء کی مذمت کی اور انہیں غلط قرار دیا۔ آقائے دو جہاںؐ کی عظمت کا خیال آتا ہے تو ہماری آنکھیں آپؐ کی بزرگی پر جھک جاتی ہیں تو یہ عبادت سے کم بات نہیں ہے۔ آپؐ پر درود بھیجنا ایک ایسا عمل ہے جو خدائے برتر کو بھی بے انتہا عزیز ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ بندوں سے کہتے ہیں کہ ’’خبردار اگر تم اپنے رسولؐ (حضرت محمد مصطفی ﷺ) سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو تو یاد رکھنا تمہاری ساری عباداتیں اکارت کردی جائیں گی اور تم کو اس کی خبر تک نہیں ہوگی‘‘۔ ایسے رسولؐ پر کروڑوں درود و سلام۔ نوجوانو! یاد رکھنا قرآن کی مندرجہ بالا آیت کو اور ایسی کوئی حرکت نہ کرنا جس سے نہ صرف تم کو بلکہ تمہارے سارے خاندان کو نقصان پہنچے۔

حضور اکرم ﷺ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو تو آپؐ کے بتائے ہوئے راستہ پر چلو تاکہ تمہارا دین اور دنیا دونوں ہی کامیاب ہوجائیں۔ سڑکوں پر چھچوری حرکت کرنا ہمارا شیوہ نہیں ہے۔ جلوس کے دوران گٹھکے کا استعمال کرنا کتنی بڑی جہالت اور بے ادبی ہے۔ حضور اکرمؐ کے اسم گرامی کی عظمت و رفعت ‘ شان و شوکت اور برکت کو مزید اجاگر کرنے کے لئے کسی قلمکار نے کیا خوب انداز اپنایا ہے کہ
علی سے عرض کی ایک شخص نے اس کا سبب کیا ہے
کہ کلمہ میں نبی کے نام کو مابعد رکھا ہے
خدا نے خود کو دی ترجیح تو پھر یہ عشق کیسا ہے
رکھے معشوق کو پیچھے یہ کب عاشق کا شیوہ ہے
علی نے اس طرح سمجھایا اُس گستاخ بے حد کو
ارے ناداں تو سمجھا نہیں اس راز عزت کو
خدا نے اس لئے رکھا ہے پیچھے نام احمدؐ کو
کہ ناپاکی میں نہ لے لے کوئی نام محمدؐ کو
زباں دھل جائے پہلے نام جب اللہ کا نکلے
پھر اس کے بعد میں کلمہ رسول اللہ کا نکلے

دونوں عالم کے سرتاج حضرت محمد مصطفی ﷺ کی عظیم الشان تعلیمات کو اپنے ذہن میں بٹھاتے ہوئے آیئے ہم اس بات کا تہیہ کرلیں کہ اگلے سال اس طرح کی بے ادبیوں سے بچیں اور حضور اکرم ﷺ کے ساتھ اپنی اٹوٹ محبت اور عقیدت کو تقدس آمیز انداز میں پیش کریں تاکہ ہم پر یہ الزام نہ لگے کہ ہم میں اور اغیار میں کوئی فرق نہیں؟ اگلے سال جلوس کو مسترد کریں اور آقا ؐ کے حکم کے مطابق سلام اور طعام کو عام کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں