اترپردیش میں امروہہ کے ایک گاؤں میں واقع مدرسہ میں نماز پڑھی جارہی تھی۔ مقامی ہندوؤں نے مدرسہ میں نماز پڑھنے کی شکایت انتظامیہ سے کی تو انتظامیہ نے مدرسہ کی عمارت کو ہی منہدم کردیا۔
اطلاعات کے مطابق امروہہ انتظامیہ نے گاؤں کے غیرمسلم افراد کی شکایت کے بعد ایک مدرسہ کو منہدم کردیا۔ گاؤں کے غیرمسلم افراد نے مدرسہ میں لاؤڈاسپیکر میں نماز پڑھنے کی انتظامیہ سے شکایت کی تھی۔ مدرسہ کو منہدم کرنے کی مجلس اتحاد المسلمین کے صدر و رکن پارلیمنٹ بیرسٹر اسدالدین اویسی نے سخت مذمت کی۔
انتظامیہ کے مطابق سات ماہ قبل سوسائٹی کی زمین پر مدرسہ تعمیر کیا گیا جو غیرقانونی ہے۔ تاہم مدرسہ کے منیجر اشتیاق احمد نے انتظامیہ کے الزام کو مسترد کردیا۔ انہوں نے کہا کہ مدرسہ ان کے دادا کی زمین پر تعمیر کیا گیا۔
وہیں ایک عہدیدار نے بتایا کہ علاقہ کے غیرمسلم افراد نے مدرسہ میں نماز پڑھنے کو لیکر اعتراض جتایا تھا جس کے بعد انتظامیہ نے مدرسہ کے حکام کو وہاں نماز نہ پڑھنے کی ہدایت دی تھی تاہم انتباہ کے باوجود وہاں نماز ادا کی جارہی تھی جس کے بعد حکام نے کاروائی کرتے ہوئے مدرسہ کو منہدم کردیا۔
ایس ڈی ایم سدھیر نے کہا کہ ’مدرسہ بغیراجازت بنایا گیا تھا اور بغیر اجازت نماز ادا کی جارہی تھی۔
حکام کی کاروائی سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ نماز پڑھنا کوئی جرم ہے بلکہ نماز ایک عبادت ہے جو ہر مسلمان پر فرض ہے۔ کیا عبادت کرنا کوئی جرم ہے۔ مقامی غیرمسلم افراد نے اگر شکایت کی تو انتظامیہ کو چاہئے تھا کہ وہ تمام مذاہب کا احترام کرتے ہوئے کوئی حل نکالے لیکن انتظامیہ نے ایک طرفہ کاروائی کرتے ہوئے مدرسہ کو ہی مسمار کردیا۔