حیدرآباد (دکن فائلز) غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے سے فلسطینیوں کی مشکوک اور پراسرار بیرونِ ملک منتقلی پر عالمی سطح پر تشویش بڑھ گئی ہے، جبکہ جنوبی افریقہ، انڈونیشیا اور ملائیشیا حالیہ دنوں میں آنے والے فلسطینی شہریوں کی غیر معمولی آمد کے بعد تحقیقات کر رہے ہیں۔ جنوبی افریقہ نے گزشتہ ہفتے ایک چارٹرڈ طیارے کے ذریعے پہنچنے والے 153 فلسطینیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے فلسطینیوں کی بے دخلی کے ممکنہ منصوبے کا حصہ قرار دیا۔
جنوبی افریقی وزیر خارجہ رونالڈ لامولا کا کہنا تھا کہ پراسرار تنظیموں کے ذریعے غزہ سے فلسطینیوں کی منتقلی ایک “واضح اور منظم کارروائی” دکھائی دیتی ہے، جس کا مقصد فلسطینی آبادی کو اپنے وطن سے دور کرنا ہو سکتا ہے۔ یہ فلسطینی ایک ایسی تنظیم المجد کے ذریعے جوہانسبرگ پہنچے جس کا نہ کوئی فعال نمبر ہے، نہ رجسٹرڈ دفتر۔ کئی مسافروں نے بتایا کہ انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ انہیں جنوبی افریقہ لایا جا رہا ہے، بلکہ انہیں انڈونیشیا یا ملائیشیا لے جانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
عرب میڈیا کے مطابق یہ کارروائیاں ایک اسٹونین کمپنی کے ذریعے کی جا رہی ہیں جس کے مالک اسرائیل اور اسٹونیا کی دوہری شہریت رکھنے والے تومر یانار لنڈ ہیں۔ کمپنی نے اب تک 350 فلسطینیوں کو تین پروازوں کے ذریعے اسرائیل کے رامون ایئرپورٹ سے منتقل کیا، جبکہ فی مسافر 1400 سے 5000 ڈالر تک رقم وصول کی گئی۔ کمپنی کی ویب سائٹ “المجد یورپ” پر کوئی فون نمبر یا پتہ موجود نہیں، اور تمام تفصیلات مبہم ہیں۔
فلسطینی وزارتِ خارجہ نے شہریوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ ایسے مشکوک گروہوں کے جھانسے میں نہ آئیں، جبکہ عرب اور بین الاقوامی حلقوں نے فلسطینیوں کی ’’رضاکارانہ ہجرت‘‘ کے بیانیے پر شدید خدشات ظاہر کیے ہیں۔ اس سلسلے میں تنظیمیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ فلسطینی عوام کو دھوکے اور زبردستی کے ذریعے وطن چھوڑنے پر مجبور کیے جانے سے بچانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔



