مسجد خواجہ محمود کا آج سنگ بنیاد، کہیں مسلمانوں کو بہلانے کی کوشش تو نہیں؟؟؟

شہید مسجد خواجہ محمود کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں پائے جانے والے غم و غصہ کو دیکھتے ہوئے حکومت نے گھڑیالی آنسو بہاتے ہوئے مسجد کی اسی مقام پر تعمیر کی اجازت دینے کا تو اعلان کیا ہے لیکن کیا حکومت کے اس خوش آئند اعلان پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔

عنبرپیٹ کی مسجد کی شہادت کے وقت بھی اسی طرح کا وعدہ کیا گیا لیکن آج تک یہاں مسجد کی تعمیر نہیں کی گئی بلکہ اس کے قریب فلائی اوور بریج کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے۔ عنبر پیٹ کی شہید مسجد کے مقام پر ابھی تک ملبہ تک کو نہیں ہٹایا گیا جبکہ اس حلقہ کی نمائندگی ٹی آر ایس کے رکن اسمبلی ہی کرتے ہیں۔

وہیں سکریٹریٹ کی مسجد کی شہادت کے بعد بھی حکومت کی جانب سے مگرمچھ کے آنسو بہائے گئے، کئی مسلم رہنماؤں نے ٹی آر ایس کے سیکولر کردار کی دہائیاں دی۔ اسمبلی میں کئی بار وزیراعلیٰ نے خود مسجد کی فوری تعمیر کا اعلان کیا لیکن آج تک مسجد کو تعمیر نہیں کیا گیا۔ واضح رہے کہ سکریٹریٹ کی دونوں مساجد میں پنچ وقتہ نمازیں ہوتی تھیں لیکن مساجد کی شہادت کے بعد وہاں نماز پڑھنے سے روکا گیا اور آج تک اس مقام پر مسلمانوں کو سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کب ان مساجد کی تعمیر مکمل کی جائے گی اور کب مسلمان یہاں نماز ادا کرسکیں گے۔ تلنگانہ کے مسلمان حکومت سے اور ٹی آر ایس کے مسلم رہنماؤں سے سوال کررہے ہیں کہ آخر کب عنبر پیٹ کی مسجد اور سکریٹریٹ کی مساجد میں مسلمان نماز ادا کرسکیں گے؟

آلیر انکاونٹر میں 6 مسلم نوجوانوں کو شہید کردیا گیا، جس کے تعلق سے اب تک حکومت کی جانب سے ایک لفظ نہیں کہا گیا جبکہ انکاونٹر میں ملوث افراد کو عہدوں سے نوازا گیا۔ اس واقعہ کی مناسب انداز میں تحقیقات تک نہیں کرائی گئی جس سے حکومت کی سونچ کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔

اب مسجد خواجہ محمود کی شہادت پر بھی حکومت کی جانب سے گھڑیالی آنسو بہانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس حلقہ کے رکن اسمبلی اور رکن پارلیمنٹ کا تعلق بھی ٹی آر ایس سے ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ رکن اسمبلی و رکن پارلیمان کو بغیر کسی اطلاع کے علاقہ میں آباد مسجد کو رات کی تاریکی میں شہید کردیا جاتا ہے۔ اس بات پر بھی بھروسہ کرنا مشکل ہے کہ وزیر داخلہ محمود علی کی نوٹس میں لائے بغیر پولیس نے بلدیہ کی غیرضروری کاروائی کو پروٹیکشن دیا۔ اطلاعات کے مطابق مسجد کی شہادت کی کاروائی کے وقت پولیس کی بھاری تعداد کو تعینات کیا گیا تھا۔

ٹی آر ایس حکومت نے گذشتہ 8 سالوں میں مسلمانوں کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے ہیں، صرف اور صرف وعدے ہی کئے گئے جبکہ مسلمانوں نے ہر انتخابات میں ٹی آر ایس کو بڑی تعداد میں ووٹ دیکر کامیاب بنایا۔ ٹی آر ایس حکومت نے دیگر طبقات کےلیے بڑی بڑی اسکیمات کو متعارف کیا ہے لیکن مسلمانوں کو یکسر نظرانداز کیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں