نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ معمول سے زیادہ سوچنا دماغ میں زہریلے کیمیکلز کی نشوونما کا باعث بن سکتا ہے۔
امریکی جریدے کرنٹ بائیولوجی میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق جب دماغ زیادہ دیر تک متحرک رہتا ہے تو ایسی شکل ڈھال لیتا ہے کہ اسے زیادہ محنت کی ضرورت پیش نہیں آتی، جس سے گلوٹامیٹ نامی کیمیکل کی گردش متاثر ہوتی ہے، انسان تھکاوٹ محسوس کرتا ہے اور کام کرنے کی تحریک کھو سکتا ہے۔
ڈاکٹر میتھیاس پیسیگلیون (Mathias Pessiglione) نے مختلف نظریات پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ تھکاوٹ دماغ کی طرف سے پیدا کیا گیا وہم ہے جو کسی بھی شخص کو کام کرنے سے روک کر اطمینان بخش سرگرمیوں کی طرف مائل کرتا ہے۔
ایک اور نظریے کے مطابق سخت مشقت جسمانی تھکاوٹ کا باعث بنتی ہے ایسے ہی ضرورت سے زیادہ سوچنا شدید ذہنی تھکن کا باعث بنتا ہے، جس سے توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔
گلوٹامیٹ ایک نیورو ٹرانسمیٹر ہے جو دماغ میں حوصلہ افزا افعال کو متحرک رکھتا ہے۔
دماغ کے بھرپور طریقے سے کام کرنے کے لیے جسم میں گلوٹامیٹ ہونا ضروری ہے لیکن یہ صحیح وقت اور صحیح ارتکاز میں ہونا چاہیے۔
اگر جسم میں نیورو ٹرانسمیٹر کی مقدار ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو یہ نیورو ٹرانسمیٹر پارکنسنز، الزائمر اور ہنٹنگٹن جیسی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔